مانسہرہ! بابر سلیم سواتی ناراض کیوں تھا؟

محمد پرویز

بابرسلیم سواتی سے میری ملاقات اس دور میں ہوئی جب وہ مسلم لیگ ن کے لیئے بحیثیت کارکن گھر گھر جا کر ملتے تھے، خلوص اور پیار سے نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلتے تھے، مسلم لیگ کے لیئے بلاشبہ رات دن ایک کرنے والے، ہنس مکھ اور ان کی بہت خدمات ہیں.

میرے علم میں ہے کہ حالات جیسے بھی رہے وہ ہر بار الیکشن کے میدان میں اترے، مقابلے میں ان کے اپنے طارق خان سواتی، شجاع سالم خان، خرم خان سے ووٹ تقسیم کروا بیٹھتے لیکن الیکشن لڑتے رہے، نہ جیتنے کی دیگر کئی وجوعات ہوتی تھیں، لیکن بندہ رواداری اور بھائی چارے والا ہے، یاروں کا یار ہے۔

عام انتخابات 2018 میں مانسہرہ سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے کے بعد گزشتہ تین ساڑھے تین سالوں میں وہ تحریک انصاف مانسہرہ کے پروگراموں سے غائب رہے، ان اندرونی اختلافات کی وجہ سے پی ٹی آئی مانسہرہ میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور چند لوگوں کے گھر کی لونڈی بن کر رہ گئی.

غازی کوٹ میں الگ دفتر اور بابر سلیم کے بھائی تیمور سلیم کی الگ بیٹھک، ان ہی اندرونی کشمکش کی وجہ سے پرانے اور مخلص کارکنان دلبرداشتہ ہو کر کنارے لگنے لگے، ہم نے کئی بار لکھا بھی کہ جماعت کے حقیقی نظریاتی دوستوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، حتی کہ ضلعی صدر شہزادہ گشتاسب خان نے بروقت اپنی دستار بچاتے ہوئے پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ دیا.

نائب صدر ڈاکٹر اشفاق صاحب کا جوش و جذبہ بھی ٹھنڈا پڑتا گیا، اس دوران شفاعت علی خان جیسے کئی دیرینہ ساتھی بھی پارٹی کے فیصلوں اور حکمت عملیوں کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو کر جماعت سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے، اس وقت بھی مانسہرہ میں تحریک انصاف کے مختلف دھڑے بن چکے ہیں اور ان کے لیڈر بھی مختلف ہیں.

اعظم خان سواتی پر الزام ہے کہ انہوں نے جماعت کو زیادہ نقصان پہنچایا، وہ عمران خان، پرویز خٹک کے انتہائی قریب رہ کر اور محمود خان سے دوستی کے باوجود مانسہرہ سے صالح محمد خان ایم این اے، بالاکوٹ سے منتخب سید احمد حسین شاہ اور مانسہرہ سے بابر سلیم سواتی میں سے کسی کو وزارتیں دلوانے میں ناکام رہے۔ لیکن ان ممبران کو اکٹھے رکھنے کے صلے میں وزارتیں لیتے رہے۔

آج مانسہرہ کی سڑکوں کی محکمانہ مرمت، پانی کی چند سکیموں، اور بجلی کے کھمبوں و ٹرانسفارمرز کے علاوہ کوئی بڑا منصوبہ نظر نہیں آتا۔ حالانکہ ضلع مانسہرہ میں وزیراعظم اور وزیراعلی کے متعدد دورے ہوئے، آج بھی عوام سوال کرتی ہے کہ مانسہرہ کو کیا ملا، علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیئے کونسا میگا پروجیکٹ لایا گیا، سیاحت، صحت اور روزگار کے لیئے کوئی بڑا کارنامہ ہو تو بتایا جائے۔

اب جبکہ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو اپنی اندرونی کشمکش، بیڈ گورننس، معاشی تباہی اور مہنگائی کی وجہ سے پختونخوا کے 17 اضلاع میں خوفناک سبکی ہو چکی، باقی اضلاع میں ہزارہ کے 5 اضلاع بھی مارچ میں فیصلہ سنائیں گے۔ مہنگائی کی ستائی عوام پر جو منی بجٹ کے نام پر کل بم گرایا گیا.

اس کے بعد ہزارہ میں بلدیاتی الیکشن کے لیئے بابر سلیم خان جیسے قائدین کو راضی کرنا اور پرویزخٹک کا ہزارہ سے ووٹوں کے تھیلے بھرنے کے لیئے اتحاد و اتفاق کا جو کارنامہ سرانجام دیا ہے اس کے نتائج بھی دیگر اضلاع جیسے ہی نکلنے ہیں۔ اب بات بابر سلیم یا صالح محمد خان کی نہیں، بلکہ حکومتی پالیسیوں کا عام آدمی کی زندگیوں پر پڑنے والا اثر ہے جو بلدیات میں وہ نتائج نہیں دے گا جو 2018 کا ٹرینڈ اور ماحول بنا تھا۔

بابرسلیم بندہ جی دار اور یاروں کا یار بندہ ہے لیکن جماعت اور اس کے اردگرد قائدین نے اس سے وفا نہیں کی۔کوئی بعید نہیں بابر سلیم ایک دن تحریک انصاف کو بھی خیرباد کہہ دیں۔ کیونکہ مخلص کارکنوں کو نظرانداز کرنے سے سیاسی جماعتیں بکھر جایا کرتی ہیں۔پھر چاہیں آپ کسی کی موچھوں کو تاو دیں یا مسخریاں کریں، پلوں کے نیچے سے پانی بہہ جاتا ہے۔

Comments are closed.