بے نظیر بھٹو کی موت آج بھی یاد ہے

خان افسر تنولی

زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی سب لوگ اپنے کاموں میں مشغول تھے دن کو میرے ساتھ کام کرنے والے دوستوں نے کہا کہ اگر آج دوپہر کا فنگشن جلدی ختم ہو گیا تو ہم سب بی بی کے جلسے میں جاہیں گے کیونکہ وہ سب پی پی پی کو سپورٹ کرتے تھے اور اس دن لیاقت باغ میں پی پی پی کا جلسہ تھا اور بی بی نے الیکشن مہم کے لیے جلسے سے خطاب کرنا تھا.

لیاقت باغ ہم سے 10 منٹ کی دوری پر تھا میرا جواب یہ تھا کہ بھائیو دھیان سے جانا کیونکہ حالات بہت خراب تھے اور خیال رکھنا کیونکہ ان دنوں کا پاکستان ایسا نہیں تھا جیسا کہ آجکل ہے ان دنوں میں پورا پاکستان دہشتگردی کی لپیٹ میں تھا وجوہات جو بھی تھیں پر بہت برے دن تھے ہر طرف خوف طاری تھا اور ہر کوئی ایک دوسرے کو شک بھری نظروں سے دیکھتا تھا.

یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں تھی آج کے جو حالات ہیں ان میں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ پوری قوم اور افواج پاکستان کی قربانیوں کا نتیجہ ہے اور خاص کر ان لوگوں کو سوچنا چاہیے جو دن رات افواج پاکستان پر کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں بے شک کچھ غلط فیصلے بھی ہوے ہیں پر جو معرکہ ہماری بہادر افواج نے مارا ہے دنیا اس پر حیران و پریشان ہے بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔

شادی کے فنگشن کے بعد وہ لوگ بی بی کے جلسے میں جانے لگے تو میں نے ایک بار پھر ان کو یادہانی کرائی لیکن سب جانے پر بضد تھے میں نے تاکید کی کہ جلدی آنا رات کے شادی کے فنگشن کی تیاری کرنی ہے وہ لوگ تقریبا 2 گھنٹے کے بعد واپس آئے تو یہی کہا کہ بہت بڑا جلسہ تھا اور سب بہت خوش لگ رہے تھے.

اسی اثنا میں نماز کا وقت ہو گیا میں نماز پڑھنے میں مصروف تھا اسی دوران ایک خوفناک دھماکہ کی آواز سنائی دی میں نے جلدی جلدی نماز ختم کی اور بھاگ کر ٹی وی آن کیا تو ابھی تک کوئی ایسی خبر نہیں آئی تھی کچھ دیر کے بعد ٹکر چلنے لگا ٹی وی پر میں باہر کی جانب لپکا کہ دیکھوں باہر کے کیا حالات ہیں کیونکہ ہم لوگ بالکل مری روڈ پر تھے.

یہ سڑک راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملاتی ہے اسی اثنا میں دیکھ کہ باہر روڈ سے کچھ لوگ جا رہے تھے ان میں پی پی پی کے امیدوار پراچہ بھی تھے تو وہاں لوگ بہت جلدی میں تھے میں نے پوچھا کہ بی بی خیریت سے ہیں کیا انہوں نے جواب دیا ہاں اللہ کا شکر ہے بی بی بچ گئی ہیں معمولی زخمی ہیں.

میری کچھ امید بندھی کہ چلو الحمداللہ بچت ہو گئی ہے پر میری یہ خوش فہمی تھوڑی دیر بعد ہی ختم ہو گئی میں دوبارہ ٹی وی دیکھنے لگا تو خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ بی بی شدید زخمی ہو گئی ہیں میں ایک بار پھر باہر آ گیا دیکھا کہ ایک گاڑی رانگ ساہیڈ سے لیاقت باغ سے فیض آباد والی طرف بہت جلدی سے گزر رہی تھی.

ساتھ میں پولیس کی گاڑیاں تھیں اور انہوں نے گنیں تان رکھی تھیں اور لوگوں کو پیچھے ہٹنے کا کہہ رہے تھے اس سے یہ اندازہ ہوا کہ بہت سیریس معاملہ ہے اور پھر کچھ دیر کے بعد یہ منحوس خبر آ گئی کہ بی بی شہید ہو گیں ہیں میں کبھی بھی پی پی کا سپورٹر نہیں رہا پر خدا کی قسم میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑے اور دل بیٹھ سا گیا.

پاکستان ایک بڑی شخصیات سے محروم ہو گیا جب بھی 27 دسمبر آتا ہے تو یہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے آج 27 دسمبر کو پردیس میں یوں پر پھر بھی یہ سب میری آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے.

Comments are closed.