ایک تھا ’مشرقی پاکستان

مظہر عباس

حسرت ہی رہی مشرقی پاکستان دیکھ سکوں۔ میں 13سال کا تھا جب یہ سانحہ رونما ہوا اب اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ تو ایک طویل بحث ہے مگر مجموعی طور پر ہم مغربی پاکستان والے ہی اس کے ذمہ دار ہیں ورنہ دنیا میں کبھی اکثریت بھی اقلیت سے الگ ہوئی ہے؟ کل 16دسمبر ہے یعنی اس بات کو پورے پچاس برس بیت گئے اور یہ خبر بھی بی بی سی سے سنی ہمارے میڈیا میں تو سب اچھا ہے کی خبریں آ رہی تھیں۔

بنگلہ دیش کل اپنی گولڈن جوبلی کا جشن منا رہا ہے اور ہم مشرقی پاکستان کی جدائی کا غم۔ ہمارے لئے سوچنے کو بہت کچھ باقی ہے، سبق بہرحال ہم نے تاریخ سے نہیں سیکھا کیونکہ ہم تو تاریخ اپنے مطلب کی لکھنا چاہتے ہیں، اپنی مجرمانہ غلطیوں پر پردہ ڈال کر۔

حسین شہید سہروردی سے لے کر شیخ مجیب الرحمٰن کی متحدہ پاکستان سے وابستگی اور جب الوطنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی مگر وہ غدار ٹھہرائے گئے، وہ ہمیشہ سے اکثریت میں تھے مگر ہم نے کبھی اس بات کو دل سے قبول نہ کیا ورنہ تو کراچی کے بعد وفاقی دارالحکومت ڈھاکہ کو ہونا چاہئے تھا مگر ایک نیا شہر بسا دیا گیا راولپنڈی کے قریب، نام اس کا اسلام آباد رکھا گیا۔

یہ بدقسمت ملک نوسال بے آئین رہا جس کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ کہیں طاقت کا توازن بنگالیوں کے ہاتھوں میں نہ چلا جائے۔ 1956 کا آئین اور جس انداز میں پہلی قومی اسمبلی تشکیل دی گئی وہ بھی یہی بات ثابت کرتی ہے۔ اس کے باوجود جب مشرقی پاکستان میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ’جگتو فرنٹ‘ جو بائیں بازو کا اتحاد تھا کامیاب ہوا تو جیت بھی ہضم نہیں ہوئی۔ وہ لوگ پھر بھی محب وطن ہی رہے۔

1947سے 1956 تک سیاسی عدم استحکام کی ذمہ داری اس وقت کی مسلم لیگ اور نوکر شاہی پر عائد ہوتی ہے۔ اگر کبھی اس دور کی آزادانہ تحقیقات ہوں تو پتا چل جائے گا کہ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کرنے کی سازش کس نے تیار کی۔

اسکندر مرزا اور محمد علی بوگرہ جیسے لوگوں کو لانے کے پیچھے کیا عوامل تھے اور پھر یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ اس وقت کے آرمی چیف کو وزیر دفاع بنا دیا گیا۔ پھرشروع ہوتا ہے مارشل لا کا سفر جو ایوب خان نے اکتوبر 1958 میں لگایا۔ بقول قدرت اللہ شہاب ’’جس کا کوئی جواز نہیں تھا‘‘ اور پاکستان کے سینئر ترین بیورو کریٹ روئیداد خان اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں اور یہ بات انہوں نے مجھے خود بتائی۔

’’1949 میں 24 سول سرونٹس نے پاکستان سول سروس کا امتحان پاس کیا جن میں سے 12 مغربی اور 12 مشرقی پاکستان سے تھے مگر مارشل لا لگنے کے بعد آہستہ آہستہ ان کی تعداد کم ہوتی گئی اور اعتماد بھی‘‘۔

رہی سہی کسر ون یونٹ نے پوری کردی اور آپ اگرجائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے سیاست دانوں خاص طور پر مغربی پاکستان کے مسلم لیگی رہنمائوں اور سول اینڈ ملٹری بیورو کریٹس نے آئین سے لے کر قانون ایسے بنائے کہ بنگالیوں کو محسوس ہونے لگا جیسے وہ اکثریت میں نہیں اقلیت میں ہیں جو بنیاد بنا پہلے 14 نکات کی جو بعد میں پیدا ہونے والے حالات کے پیش نظر مشہورِ زمانہ چھ نکات میں تبدیل ہوگئے۔

ایوب خان نے صدارتی انتخابات کا اعلان کیا تو تمام اپوزیشن نے مشترکہ طور پر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا امیدوار نامزد کیا۔ مشرقی پاکستان کی پوری قیادت بھی انہی کے ساتھ تھی بشمول شیخ مجیب الرحمٰن جو محترمہ کے پولنگ ایجنٹ بھی تھے۔ اس مہم کا آغاز بھی کہتے ہیں مزار قائد سے ہوا تھا جہاں مجیب بھی موجود تھے۔

ایوب خان صدر ’’منتخب‘‘ ہوئے تو بنگالیوں کی مایوسی میں اور اضافہ ہوا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ فراڈ الیکشن ہوا ہے۔ بعد میں یہی کچھ بنیاد بنا عوامی لیگ کی اور اس کے منشور میں سخت موقف کی۔

ایوب کے خلاف تحریک چلی تو اس کی قیادت انہی سے بغاوت کرنے والے وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے کی جنہوں نے صدارتی الیکشن تک ایوب خان کا ساتھ دیا۔

پاکستان پھر بھی بچ سکتا تھا سیاسی افراتفری سے اگر اقتدار 1962 کے آئین کے تحت اس وقت کے اسپیکر کے حوالے کر دیا جاتا مگر ایک بار پھر اس ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا اور اس بار جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھال لیا اور 1970 میں لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت الیکشن کرانے کا اعلان کیا۔ یہ انتخابات آئین ساز اسمبلی کیلئے تھے جس کے بعد 120 دن میں آئین تشکیل دیا جانا تھا۔

شیخ مجیب کی عوامی لیگ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری مگر اس نے تمام نشستیں مشرقی پاکستان سے حاصل کیں جبکہ مغربی پاکستان میں 1967 میں قائم ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی بڑی جماعت بن کر ابھری مگر اس نے بھی تمام نشستیں مغربی پاکستان کے سندھ اور پنجاب میں حاصل کیں۔ دیگر جماعتوں میں اگر بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی جس کی قیادت مولانا بھاشانی کر رہے تھے، مشرقی پاکستان سے الیکشن میں حصہ لیتی تو عین ممکن ہے مجیب کو وہ اکثریت نہ ملتی۔

یہاں سے کردار شروع ہوتا ہے جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کا اور حقیقت یہ ہے کہ شاید بھٹوکی پوری سیاست کی یہ سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی کیونکہ یہ نہ صرف بنیاد بنی بنگلہ دیش کے قیام کی بلکہ ملک میں بائیں بازو کی سیاست کے زوال کی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس تو ابھی آئین بنانے کیلئے بلایا گیا تھا مگر اقتدار کی منتقلی بہرحال عوامی لیگ اور شیخ مجیب کو ہی ہونی تھی۔

اس میں جنرل یحییٰ اور ان کی ٹیم کا کردار خاصا مشکوک رہا اور پھر مارچ 1971 میں مشرقی پاکستان کا فوجی حل نکالنے کی کوشش کی گئی جو آخر کار بھارت کی فوجی مداخلت اور پاکستان پر حملے کی صورت اختیار کر گئی۔

پچھلی پانچ دہائیوں سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا کیونکہ آج تک ہم اپنے سیاسی مخالفین کو ’غدار‘ کہتے آ رہےہیں۔ ہم نے اپنے حقوق مانگنے والوں کو اسی لقب سے پکارا۔ بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا، سندھی نوجوان ہوں یا مہاجر یہ ’غداری کی فیکٹری‘ اب بند ہونی چاہئے۔ اچھا ہوا کہ وزیراعظم عمران خان نے ’گوادر‘ سے اٹھنے والے طوفان کوروکنے کے لئے کوئی ’بند‘ تو باندھا۔ بات اب عمل کی ہے ورنہ طوفان سونامی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ رہنا چاہتا تھا مگر ہم نے 24 برسوں میں صورتحال ایسی کر دی کہ ان کے پاس کوئی اور راستہ ہی نہ چھوڑا۔ سانحہ مشرقی پاکستان سیاست دانوں، فوجی آمروں اور مغربی پاکستان کی اشرافیہ کی غلطیوں کا نتیجہ تھا۔ اب غلطی کی گنجائش نہیں کیونکہ اب تو ایسی آوازیں خود پنجاب سے بلند ہو رہی ہیں۔ خدارا سمجھیں۔ دشمن نے جو کیا وہ تو اسے کرنا ہی تھا ہم نے جوکیا وہ نہیں کرنا چاہئے تھا یہ سبق ہے سانحہ مشرقی پاکستان کا.
(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Comments are closed.