پراسرار خاموشی

خالد مجید

خیال تو یہ تھا کہ تبدیلی سرکار کے نعروں بھرے افکار میں سے اگر 40 فیصد بھی کام ہو گیا تو ملک ترقی کی شاہراہ پر بھاگنا شروع کر دے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاگنا تو درکنار ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں چلنے میں بھی دقت آگئ ھیے لیکن ہوا کیا یہ تو سب کے سامنے ہیے
انتظامی ڈھانچہ بری طرح متاثر ھو چکا ہے۔۔۔۔۔ بلکہ ہر طرف سے خستہ ھی نظر آ رہا ہے
لوٹ مار کا بازار گرمی کی بلند ترین سطح پر ہے غربت۔۔۔ بے روزگاری ۔۔۔ مہنگائی نا انصافی اور لاقانونیت شتر بے مہار کی طرح ہیں

ایسے میں وزارت تعلیم نے بچوں کے مستقبل ساتھ عجیب کھلواڑ شروع کر رکھا ہے بچے کنفیوز ھیں تو ماں باپ پریشان اور وزارت تعلیم کو کچھ اپنی خبر نہیں ؟

انھی سوچوں کے درمیان چلتے چلتے گوشہ دانائی تک جا پہنچے۔۔۔۔۔۔۔کمرے میں روشنی تو تھی مگر کمرہ تنہائی میں گہرا سکوت تھا لیکن کوئی آواز تھی جو دروازے کی درزوں سے چھن چھن کر باہر آ رہی تھی ھم نے دھیرے سے کمرے کا دروازہ کھول کر دیکھا تو اندر گھپ اندھیرا تھا.

سامنے کی دیوار پر لگی ایل ای ڈی پر ایک لڑکی ہے کچھ گارہی تھیں لیکن اس کے الفاظ ہماری سمجھ سے بالاتر تھے کہ وہ زبان عربی تھی لیکن اس کے باوجود گانے کے ہمراہ دبی دبی ہچکیاں بھی سنائی دے رھی تھیں.

بغیر آواز جو ھم آگے بڑھے تو یاران گوشہ دانائی منہ پھٹ ۔۔۔۔۔ زبان دراز اور استانی سیانی انہماک سے نظم سن رھیے تھے ھم بھی خامشی سے کرسی پر بیٹھ گئے ۔۔۔۔ دکھ بھرے لفظوں کے ساتھ سراپا احتجاج ” نائ الرغونی "تھی جو فلسطین پر جاری ظلم و بربریت کا نوحہ پڑھ رھی تھی جبکہ ہمارے درینہ ساتھی کمرے کی تنہائی اور خاموشی کو اپنی ہچکی سے کسی کے ہونے کا احساس دلا رہے تھے.

انھوں نے نظم کے ختم ہوتے ہیں دوبارہ نظم چلا دی اب انگلش کے لفظ بھی ساتھ ساتھ آ رہے تھے جب کہ وہ دکھ درد کو عربی میں بیان کر رہی تھی وہ کہہ رہی تھی
اگر یروشلیم اپنے بچوں کے متعلق پوچھے
تو کہہ دینا وہ شیخ جراح میں ہیں
اگر غزہ اپنی سحر کے اجالوں کے متعلق پوچھے تو کہہ دی

کوئی اندھیرا تاحیات نہیں
اگر یروشلم اپنے بچوں کے متعلق پیچھے
تو کہہ دینا وہ شیح جراح میں ہیں
اگر غزہ اپنی سحر کے اجالوں کے متعلق پوچھے
تو کہہ دینا کوئی اندھیرا تاحیات نہیں
اے ماں مت سو تمہارے بچے ابھی جاگ رہے ہیں ہیں
کھلے دل اور روشن آنکھوں سے
اےماں مت گھبرانا
تمہارے بچے واپس آرہے ہیں

عزم و استقلال و محبت کے لئے لیے
اپنی سرزمین کی لچک و ہمت کے لیے
ایک سرزمین ۔۔۔۔۔۔۔ایک لڑکا ایک لڑکی
پھول و گل اور پتے اٹھائے
چنبلی ۔۔۔ گارڈینا اور گیندے کے پھول
پر مسرت عروسی لباس میں گھونگھٹ ڈالے
آنے والی بارات کی تیاری کے لیے
اور وہ گھر جو باقی رہتا ہے
اس کی حفاظت کر رھے ھیں
اے ماں سو
تمہارے بچے واپس آرہے ہیں
ہم واپس آرہے ہیں
اپنی سرزمین کی تعمیر کے لئے
بند دروازوں کو کھولنے کے لئے
ہم واپس آرہے ہیں اپنی سر زمین کی تعمیر کے لئے
بند دروازوں کو کھولنے کے لیے
کاشتکاری کے لیے ۔۔۔۔ تعمیر سازی کے لئے
ہیفہ۔۔۔۔ اکا اور لدھ میں
نبیس ۔۔ کفار اور جنین میں
پرمسرت عروسی لباس میں گھونگھٹ ڈالے

آنے والی بارات کی تیاری کے لیئے
اور اس گھر کے لئے جو باقی رہتا ہے
وہ واپس آرہے ہیں
ہم واپس آرہے ہیں ہیں

نظم تو ختم ہوگئی مگر گوشہ دانای کے کمرہ تنہائی ابھی مکمل اداسی تھی کہ فلسطین کی ماں کی سربریدہ لاش کے سرہانے ایک ایسے لیڈر کی بیٹی جو گزشتہ 35 سال سے صہیونی قوتوں کے خلاف جیلوں اور عقوبت خانوں میں استقامت کے ساتھ سختیاں جھیلتے رہے ہیں ۔۔۔۔ سختیاں سہتے رہے ہیں

نظم کیا تھی ایک دھماکہ گولا ہی تو تھی کہ بکھری لاشوں کے درمیان بغیر آنسو بہاۓ بچی دکھ کا گیت گا رہی تھی۔۔۔۔۔ یہ وہ گیت ھیے جس پر سوشل میڈیا نے پابندی لگا دی تھی۔۔۔۔۔۔ اور یہ بہادر لڑکی بے گور وکفن لاشوں کو اپنے واپس آنے کی نوید سنا رہی تھی انہی دکھی لمحوں میں پتہ چلا کہ جنگ بندی کر دی گئ ھیے ۔۔۔۔۔ لیکن گیارہ دنوں کا حساب کون دے گا ۔۔۔۔ بچے جو یتیم ہو گئے ان کا کفارہ کیسے ادا ہوگا جو عورتیں بیوہ ہو کر زندہ ہیں ان کا کیا ہوگا اور جن بوڑھے ماں باپ کے جوان بچے اس بربریت کی نذر ہوگئے ہیں ان کا کیا ہوگا اور ان کا کیا ہوگا جو زخموں سے چور ہے.

جنگ بندی ہوئی ہے یاصہونی طاقتوں نے خود کو تازہ کرنے کے لیے خود کو نئے سرے سے وارم اپ کرنے کے لئے ستانے کا بہانہ ڈھونڈتا ہے۔۔۔۔۔ جنگ بندی کا ڈھونگ رچایا ہے کیونکہ ظلم و ستم کا رمبا ناچنے والوں کی خاموشی میں بھی طوفاں پوشیدہ ہوتا ہے خدا فلسطین کے حوصلہ مندوں استقامت و بہادری اور دلیری کے ساتھ ساتھ ان کے گمان کو زندہ و سلامت رکھے اور "الفتح ” کے نصیب میں فتح لکھ دی جاۓ !

Comments are closed.