شہر بانو معیز علی
سترہ سال کی عمر میں مجھے حجِ بیتُ اللہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ 2003ء کی بات ہے۔ زائرین کا رش تھا۔ ہر ایک کی طرح میں بھی مذہبی عقیدت اور جذبات سے سرشار تھی، جوش و ولولہ بھی بے انتہا تھا۔ بڑا بھائی اور والد نہیں تھے، بزرگ ماموں ہمراہ تھے۔ قافلے کے سالار نے سفر کے آغاز میں تنبہیہ کردی تھی کہ مطاف میں رش ہوگا، حجرِاسود کو بوسہ دینے کے لیے کوئی خاتون تنہا جانے کی کوشش نہ کرے۔ محرم کے ساتھ جائے، وہ بھی اس صورت میں کہ وہ اس بھیڑ میں حفاظت کی طاقت رکھتا ہو۔
عمر کا جوش، عبادت کا شوق وہاں پہنچ کئی گنا بڑھ گیا تھا، ایسے میں ہوش کہاں رہتا ہے۔ میں ماموں جان کو بغیر بتائے حجرِ اسود کو بوسہ دینے جا پہنچی۔ اس سے قبل کہ میں انسانوں کی بھیڑ میں پھنستی۔ میری نظروں کے سامنے کچھ مناظر ایسے آئے کہ انھوں نے مجھے مزید آگے بڑھنے سے روک دیا۔ اس رش میں کچھ لوگ اپنے رویّوں سے دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بن رہے تھے اور کچھ دوسروں کی مدد کرنے والے تھے، لیکن ان دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی تھا۔
مرد ہوں یا خواتین، دھکّم پیل اور بھیڑ میں کسی طرح جب بوسہ دے کر باہر کی طرف دھکے کھاتے ہوئے جاتے تو کسی کے سر سے چادر ہٹی ہوئی تھی تو کسی کے احرام کی بے حرمتی ہورہی تھی۔ قریب سے اس منظر کو دیکھ کر تنبیہہ درست لگی۔ احساس ہوا کہ اگر حجرِ اسود کو بوسہ دیے بغیر چند میٹر دور ہی سے عقیدت و احترام سے دیکھ کر، اپنی آنکھوں میں بَھر کر، سلام کرکے بھی طواف مکمل ہوسکتا ہے اور ثواب میں بھی کمی نہیں تو جان مال اور حرمت کو داؤ پر لگانا حماقت ہی نہیں جہالت بھی ہوگا۔ یہ صورتِ حال عمرے کے دوران، رجب یا رمضان المبارک کے علاوہ دیگر مہینوں میں نہیں ہوتی۔ حج کے دوران رش کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہتا۔
اسی دوران میں نے ایک اور راستہ اپنایا۔ تمام رات کعبہ میں گزاری۔ نمازِ فجر کا وقت ہوا تو صف بندی کے دوران عین حجرِ اسود کے سامنے پہلی صف میں بیٹھ گئی۔ پلان یہی تھا کہ جیسے ہی نماز ختم ہوگی میں دوڑ کر حجرِ اسود کو بوسہ دوں گی اور یوں قلب و نظر کی تسکین کرلوں گی۔ صفیں بننا شروع ہوئیں اور کچھ ہی لمحوں میں جب میں نے نگاہیں اپنے ارد گرد دوڑائیں تو ہر طرف مرد ہی مرد تھے۔ میں نارنجی عبایا میں ملبوس واحد خاتون۔ حجرِ اسود کے قریب کھڑا سیکیورٹی اہلکار گھور رہا تھا۔
اسے یقین ہوگا کہ یہ میری نادانی ہے اور میں نے کچھ غلط اندازہ لگایا ہے، یہ سوچے بغیر کہ پلان فیل ہوا تو میں بڑی مصبیت میں مبتلا ہوسکتی ہوں۔ اردگرد اور پیھچے صفوں میں موجود مرد حضرات میری اس حرکت پر حیران اور پریشان تھے۔ جماعت میں کچھ ہی وقت رہ گیا تھا، میں نے جائے نماز تھامی اور جگہ چھوڑ دی۔ صفیں چیرتے ہوئے خواتین کے مخصوص احاطے تک پہنچی لیکن جماعت نہ مل سکی۔ یوں یہ کوشش بھی رائیگاں گئی۔
اس وقت میرے ذہن پر صرف ایک بات سوار تھی کہ اگر مرد حجرِ اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور بھرپور ثواب کما رہے ہیں تو مجھے بھی اس کا پورا حق حاصل ہے۔ ان دونوں مواقع پر مجھے کسی نے روکا نہیں اور نہ مجھے اپنا حق استعمال کرنے سے منع کیا، لیکن متوقع نتیجہ اور اس کی سنگینی میرے سامنے تھی۔ اسے بھانپتے ہوئے دو قدم پیھچے ہٹنے میں ہی عافیت رہی۔
اس قصّے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہم حقوق کی بات کرتے ہیں تو حقوق کے ساتھ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ لاہور میں خاتون ٹک ٹاکر کے ساتھ بدتمیزی کے واقعے کے بعد حمایت و مخالفت کا طوفان آیا ہوا ہے اور ابھی تک تھم نہیں سکا ہے۔ کہنا یہ تھا کہ چار سو افراد کے ہجوم میں مٹھی شر پسند یا بد اطوار لوگ ہوں گے، باقی تین سو نوّے بے قصور۔ پھر بھی سب کے سب بھیریے ہیں، لیکن شاید خاتون کو غیرذمہ دار نہیں کہا جاسکتا! کیوں کہ ہمیں تو صرف حق کی بات کرنا ہے، ذمّہ داری کی نہیں۔
جاتے جاتے واقعات میں مماثلت نہ ہونے پر فتوے جڑنے والوں کے نام بھی ایک پیغام۔ مماثلت مینارِ پاکستان پر ہونے والے واقعے، نور مقدم کیس، کفن پوش میّتوں سے زیادتی کے واقعات، قصور کی زینب کے سانحے میں بھی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غلط عمل اور کسی بھی حرکت کی مذمت کی جائے اور ان سے سبق سیکھا جائے۔ صرف اس بات کا تعیّن کرنے کی کوشش میں لمبے چوڑے تبصرے کرنا مسئلے کا حل نہیں کہ ظالم کون اور مظلوم کون ہے۔( بشکریہ اے آر وائی نیوز)
Comments are closed.