خارجہ پالیسی سے متعلق ہونے والی اہم غلطیاں
ملیحہ لودھی
خارجہ پالیسی ایک انتہائی نازک معاملہ ہے اور اسے درست طور پر کسی بھی ملک کی پہلی دفاعی لائن کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پالیسی سازی اور اس کی وضاحت کے لیے بہت زیادہ سوچ بچار اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک خارجہ پالیسی کو عوامی سطح پر جس انداز میں پیش کیا جاتا ہے وہ اسے کم یا زیادہ مؤثر بناسکتا ہے ساتھ ہی وہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
سفارت کاری میں اس بات کی اہمیت انتہائی زیادہ ہے کہ کب عوامی سطح پر کوئی بات کہی جائے اور کب خاموش رہا جائے۔ الفاظ کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں، کبھی آپ اس کے لیے تیار ہوتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے۔
خارجہ پالیسی پر دیے جانے والے بیانات پاکستان کے سفارتی تعلقات، دنیا کے سامنے ہماری شبیہہ اور بین الاقوامی رائے پر منفی یا مثبت اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ خارجہ پالیسی پر دیے جانے والے بیانات میں یہ فرق نہیں کیا جاتا کہ یہ بیانات صرف ملکی عوام کے لیے ہیں یا پھر بین الاقوامی برادری کے لیے، یہی وجہ ہے کہ خارجہ پالیسی پر کوئی بھی بیان دینے سے قبل الفاظ کو تولنا بہت ضروری ہے۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ اعلیٰ حکومتی عہدے دار خارجہ پالیسی کے حوالے سے بیانات اور انٹرویوز دیتے ہوئے ان باتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ نتیجتاً غیر ضروری الجھاؤ پیدا ہوتا ہے جو ملک کے لیے سودمند نہیں ہوتا۔
اس کو یوں دیکھیے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کئی وزرا جن کی ذمہ داریاں خارجہ معاملات سے متعلق نہیں ہیں وہ بھی بین الاقوامی معاملات پر عوامی سطح پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اکثر ان کے بیانات اپنے دیگر ساتھیوں سے مختلف ہوتے ہیں۔
حال ہی میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کو ہی دیکھ لیجیے۔ اس اجلاس کے حاصلات پر وزیر خارجہ کے علاوہ کم از کم 3 مزید وزرا نے بھی تبصرہ کیا۔ ایک وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کے گرے لسٹ میں برقرار رہنے کی وجہ اس کے پاس جوہری صلاحیت کا ہونا ہے۔ یہ واحد معاملہ نہیں ہے کہ جس پر مختلف بیانات سامنے آئے ہیں۔
اس وقت افغانستان کے حالات خطرناک ہیں اور افغانستان کے مستقبل کا براہِ راست اثر پاکستان پر بھی ہوگا۔ ایسی صورتحال میں بھی کچھ وزرا اس قسم کے بیانات دے رہے ہیں جو خارجہ پالیسی کے مطابق نہیں ہیں۔
سرکاری اعلانات میں مستقل مزاجی کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ خارجہ پالیسی کی وضاحت ہوجائے اور خارجہ معاملات کے حوالے سے پاکستان کے مفادات اور مقاصد پر کوئی ابہام نہ رہے۔ تاہم اس عزم کو اس وقت ٹھیس پہنچتی ہے جب دیگر قلمدان رکھنے والے وزرا بھی اپنی محدود معلومات کے ساتھ صرف مقبولیت کے حصول کے لیے خارجہ معاملات پر بیانات دینا شروع کردیتے ہیں۔
صرف دیگر وزرا ہی نہیں بلکہ جو لوگ خارجہ پالیسی کے حوالے سے بیانات دینے کے ذمہ دار ہیں انہیں بھی یہ سوچنا چاہیے کہ کیا خارجہ معاملات پر بہت زیادہ گفتگو کرنا یعنی روزانہ کی بنیاد پر پریس کانفرنس کرنا یا ٹی وی پر آنا مؤثر ثابت ہوگا اور کیا ایسا کرنا احتیاط کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بیانات دینے سے ان کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں بعض اوقات غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں جن کی وجہ سے ایسی شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے جس سے بچا رہنا ممکن ہوسکتا ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزرا کے بیانات کی کتنی مرتبہ وضاحت کی جاتی ہے یا ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ تجربہ کار سیاستدان اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے اور ضرورت سے زیادہ میڈیا کوریج میں ایک توازن برقرار رکھتے ہیں۔ یہ اصول خارجہ معاملات کے ذمہ داروں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ کچھ وضاحتیں ترجمانوں کے لیے چھوڑ دینے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔
حکومت کی جانب سے خارجہ پالیسی پر آنے والے بیانات کا ایک پہلو عوامی سیاست اور عوامی مقبولیت بھی ہوتی ہے۔ یہ رجحان ان دیگر ممالک میں بھی دیکھا گیا ہے جہاں عوامی سیاست کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عوام کو خارجہ پالیسی سمجھانا اور خارجہ پالیسی کے مقاصد پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے اشتعال انگیز بیانات دیے جائیں جن کا مقصد صرف عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو اور دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ٹھیس پہنچے۔
لیکن بات پھر وہی ہے کہ عوامی مقبولیت کے لیے کوئی کام کرنا ہمارے حکمرانوں کے لیے نیا نہیں ہے۔ تاہم جیسا کہ باقی جگہوں پر ہوتا ہے کہ یہ رجحان ایسی پیچیدگیوں اور مشکلات کا باعث بنتا ہے جن سے بچنا ممکن ہوتا ہے۔
جب آپ محض عوامی مقبولیت کی خاطر خارجہ پالیسی سے متعلق بیان دیتے ہیں تو اس سے یہ خدشہ پیدا ہوسکتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے سامنے ملک غیر سنجیدہ اور غیر متوقع حیثیت میں پیش ہو۔ سابقہ دوست ممالک پر الزام تراشی کرنا شاید ہی کسی ملک کو اس کے مقاصد کے حصول میں مدد دے سکے۔ جو کچھ بھی مقامی سطح پر کہا جاتا ہے اس کے اثرات ملک سے باہر بھی جاتے ہیں اور پھر اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔
( بشکریہ ڈیلی ڈان)