مانگل سے متعلقہ ماحولیاتی مسائل
دلاور خان تنولی
قدرت نے ہمیں جن بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے ان میں سے ایک پانی ہے۔ پانی اللہ کی ایک ایسی نعمت ہے جس کے لیے ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے اور کوئی بھی ذی شعور پانی کی اہمیت کا انکار نہیں کرسکتا۔
ہمارے ضلع ایبٹ آباد اور مانسہرہ کی سرحدوں پر بہنے والی مانگل ایبٹ آباد کے پہاڑوں سے نکل کر حسینیاں، زیارت میرا، بحالی، جنکیاری، شیربائی، شہیدآباد اور تندارہ سے ہوتی ہوئی تربیلہ جھیل میں شامل ہو جاتی ہے۔اور یہ کم و بیش 200 کلو میٹر کے لمبائی پر محیط ہے۔ اس مانگل میں تقریباََ 20 کیوبک فٹ فی سیکنڈ پانی چوبیس گھنٹے سال کے 12 مہینے بہہ رہا ہوتا ہے۔
آ ج سے تقریباََ 25 سال پہلے جب ہم اس مانگل کو دیکھا کرتے تھے تو اس وقت اس کا پانی بہت ہی شفاف ہوتا تھا جسے پینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا، اس میں مچھلیاں بھی کثیر تعداد میں موجود ہوتی تھیں اور مقامی لوگ جال کے ذریعے مانگل میں سے مچھلیوں کا شکار کرتے تھے۔
کبھی کبھار ہم مانگل کے کنارے پر تھوڑی اونچی جگہ پر بیٹھ جاتے تھے اور گہر ے پانی کی تہہ میں مچھلیوں کو تیرتے دیکھ کر محظوظ ہوتے رہتے تھے اور کئی بار راقم نے جال کے ذریعے اس مانگل سے مچھلیوں کا شکار بھی کیا ہے۔ مانگل کے اس میٹھے پانی کی مچھلی بہت ہی لذیذ ہوتی تھی۔
گزشتہ سال کورونا وبا کی وجہ سے چھٹیوں کے دوران ایک بارپھر اس مانگل کو بہت قریب اور غور سے دیکھنے کا موقع ملا اور اس کی حالت دیکھ کر بہت صدمہ ہوا اب اس پانی کی شفافیت ماند پڑ گئی ہے اور اس میں مچھلیاں نہ ہونے کے برابر ہیں.
میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ اس مانگل کے آس پاس بسنے والے لوگوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اور قدرتی وسائل اور نعمتوں کی نا قدر ی ہے۔ مانگل کا پانی مختلف قسم کے کچرے اور گندے اجزا کی شمولیت کی وجہ سے گدلا اور آلودہ ہو گیا ہے.
یہ گندگی مانگل کے آس پاس بننے والی چھوٹی انڈسٹری، ہسپتالوں اور سیوریج کی نالیوں کے ذر یعے مختلف جگہوں سے مانگل کے پانی میں شامل ہورہی ہے۔ انوارنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی صوبائی گورنمنٹ کا ادارہ ہے اور اس ادارے کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ مانگل کے اس پانی کو آلودہ ہونے سے بچائے لہذا اس ادارے کو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے تاکہ اس ماحولیاتی مسلئے کا سد باب ہو سکے اور مانگل کا پانی آلودہ ہونے سے محفوظ رہے۔
پچھلے بیس سالوں سے آس پاس کے گاوں کے چند لوگ مانگل میں سے مچھلیوں کا غیر قانونی طورپر کرنٹ، بم اور کیمیکل کے ذریعے شکار کر رہے ہیں جس سے مچھلیوں کے ساتھ ان کے بچے بھی مر جاتے ہیں اور اس طرح ان مچھلیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے اور یہ تقریبا نا پید ہو تی جا رہی ہیں۔
مذکورہ طریقوں سے مچھلیوں کا شکارکرنا فشریز آرڈیننس کے مطابق جرم ہے اور اس کی سزا 6 مہینے قید بامشقت کے ساتھ جرمانہ بھی ہے لیکن بس قانون کی کتابوں میں، فشریز رولز کے مطابق مچھلی کے قانونی طریقے سے شکار کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف فشریز لائسنس جاری کرتا ہے اور مچھلی کا شکار کرنے والا ہر شہری اس بات کا پابند ہے کہ و ہ لائسنس حاصل کیے بغیر شکار نہ کرے۔
راقم کی صوبائی فشریز ڈپارٹمنٹ سے درخواست ہے کہ وہ مانگل کی اہمیت کو سمجھے اور اس میں مچھلیوں کی افزائش اور بقا ء کے لیے اقدامات کرے تا کہ ہماری مانگل کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہو اور اس علاقے میں سیاحت کو بھی فروغ ملے۔
مانگل کے پانی کا صاف و شفاف ہونا اور اس میں مچھلیوں کا ہونا ساحت کے فروغ کے لیے بہت اہمیت کاحامل ہے۔
راقم نے کچھ دوستوں سے مشورے کے بعد مقامی باشندوں پر مشتمل ایک سوسائٹی کی بنیاد رکھی ہے جس میں مانگل کے آس پاس ہرگاوں سے کم از کم دو رضا کار شامل ہیں جو ذاتی طور پر اور متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر مانگل کی صورت حال کو بہتر کرنے اور اس کو قائم رکھنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
ہم متعلقہ اداروں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ مانگل کی بقا کے لیے جو بھی اقدامات کریں ہیں ہمیں یعنی انوارنمنٹل پروٹیکشن سوسائٹی کے نمائیندگان کو اپنا مدد گار پائیں گے۔ اللہ ہم سب کو ماحولیاتی شعور عطا کرے تاکہ ہمارے بعد والوں کو اچھا ماحول میسر ہو اور وہ قدرتی وسائل سے استفادہ کر سکیں۔