راولپنڈی کا تاریخی پارسی قبرستان
شکیل تنولی
راولپنڈی کے اصغر مال چوک کے بائیں ہاتھ پر جیولری مارکیٹ ہے اور اس مارکیٹ کی چکا چوند روشنیوں کے عقب میں پارسی قبرستان کے نام سے ایک شہر خموشاد آباد ہے یہ قبرستان راولپنڈی میں مقیم ایک قلیل تعداد میں آباد پارسی اقلیت کی آخری رسومات ادا کرنے کی جگہ ہے.
قیام پاکستان کے وقت راولپنڈی میں اسی ہزار پارسی کنبے آباد تھے مگر اب یہ تعداد سکڑ کر صرف بیس افراد تک محدود ہو گئی ہےکچھ عرصہ پہلے تک سڑک سے بھی قبرستان صاف نظر آتا تھا۰ مگر 1970 کی دہائی کے اوائل میں یہاں ایک مارکیٹ بن جانے سے پارسی قبرستان نظروں سے اوجھل گیا.
یہاں ایک خاتون بیگم بریگیڈئر ادریس نے “ سوق ادریس” نام کی مارکیٹ بنا دی، شروع میں یہاں الیکٹرونکس اور سپر سٹورز تھے لیکن بعد میں جب یہاں “ کانٹینینٹل جیولرز” نام سے دکان بنی تو پھر رفتہ رفتہ یہ مارکیٹ جیولرز کا مرکز بن گئی.
اب کسی کو یاد بھی نہیں ہے کہ یہاں کوئی ‘سوق ادریس’ نام کی کوئی مارکیٹ تھی اب یہاں راولپنڈی کا بڑا صرافہ بازار بن چکا ہے، ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ‘سوق ادریس’ مارکیٹ کی تعمیر سے مارکیٹ مالکان اور قبرستان انتظامیہ کے درمیان مقدمہ بازی بھی چلتی رہی.
یہ مقدمہ بازی اب تک جاری ہے لیکن اس قانونی جنگ کے کئی کردار اب اس دنیا میں نہیں رہے، اسی مارکیٹ کے درمیان سے ایک گلی اندر پارسی قبرستان میں نکلتی ہے اور لوگ قبرستان آتے جاتے ضرور ہیں مگر بیشتر کو اسکی تاریخی اہمیت معلوم نہیں ہوتی.
جب 1849 میں انگریز سکھوں کو شکست دے کر راولپنڈی پر قابض ہوئے تو انہوں نے ہی خطے میں اس جگہ کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر راولپنڈی میں ملک کی سب سے بڑی چھاؤنی کی بنیاد رکھی اور اسے نادرن کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر بھی بنایا گیا.
انگریزوں کے آنے کے بعد ہی راولپنڈی میں تو ملک کے دوسرے علاقوں سے لوگ حصول روزگار کیلئے آنا اور یہاں آباد ہونا شروع ہو ئے جن میں مختلف مذاہب اور زبانیں بولنے والے افراد شامل تھےاور اسی وجہ سے یہاں کئی مذہبی، ثقافتی،اور لسانی رنگ اور تصاویر ملتی ہیں.
پاکستان بننے سے 6 سال قبل کی مردم شماری کے مطابق راولپنڈی شہر کی57 فی صد آبادی غیر مسلموں پر مشتمل تھی جن میں ہندو، سکھ، عیسائی ،پارسی، بدھ مت مذھب کے پیروکار شامل تھےتاہم ان میں پارسی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ تھے.
اصغر مال چوک کے عقب میں آباد شہر خموشاں یعنی پارسی قبرستان کی پرشکوہ عمارت اور قبرستان کی ہیئت اس بات کی غماز ی کرتی ہے کہ پارسی کبھی اس شہر کے معتبر مکین تھے.
پارسی قبرستان میں کب سے تدفین کا آغاز ہوا اس کا دستاویزات میں کوئی ذکر نہیں ہے تاہم اب بھی یہاں تقریباً 130 قبریں موجود ہیں قبر پر تاریخ وفات سن 1860 درج ہے جس سے اس تاریخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے.
بعض قبروں کی تختیوں پر گجراتی زبان میں کوائف درج ہیں اور اس وقت برصغیر میں روایت کے مطابق قبروں پر نام کے ساتھ ذات مذہب اور عقیدے کا اندراج بھی کیا جاتا تھا، جبکہ پارسی اپنا علاقہ اور پیشہ بھی ساتھ کتبے پر درج کرتے تھے.
پارسی قبرستان کے کتبوں پر جسوالہ اور منوالہ جیسے لاحقے کثرت سے استعمال ہوئے ہیں ساتھ ساتھ سوڈا والا، جن والا، رم والا،پان والا،کی تحریریں بھی موجود ہیں، پارسی اپنے مردے جلاتے یا دفن نہیں کرتے بلکہ ایک کھلے مینار نما گول عمارت میں رکھ دیتے ہیں.
وہ اس لئے کہ پارسی مذہب میں مٹی اور آگ کو مقدس سمجھا جاتا ہے ان کے عقیدے کے مطابق مردے جلانے یا دفن کرنے سے آگ اور مٹی خالص نہیں رہتے اسی لیے وہ اپنے مردوں کوکھڑا رکھتے تھے تا کہ انہیں کیڑے مکوڑے یا مردار خور مخلوق نہ کھا سکے.
وہ چاہتے تھے کہ ان کے مردے کا گوشت سورج کی روشنی میں گل سڑ جاۓ اس کے بعد ہڈیوں کو اکٹھا کر کے چورا بنا کر رکھ دیا جاتا ہے جو بعد میں بارش یا ھوا سے بکھر جاتا ہے.
مردوں کی اس خاص عمارت کو “دخمہ” یا مینار خاموشی” کہا جاتا ہے "دخمہ” ایسے شہروں میں تعمیر کیا جاتا ہے جہاں پارسیوں کی کثیر تعداد آباد ہو اور مردار خور جانور بھی کثرت سے ہوں جہاں دخمہ نہیں ہوتا وہاں ان کے قبرستان ہوتے ہیں.
قبرستان میں مردوں کو بہ امر مجبوری دفن کیا جاتا ہے راولپنڈی میں بھی پارسیوں کی قلیل تعداد کی بنا مردے قبرستان میں دفن کۓ جاتے ہیں،اصغر مال چوک کا یہ پارسی قبرستان رومن طرز تعمیر کا شاہکار ہے جہاں قبروں تک پہنچنے کے لۓ خوب صورت راہداریاں بنائی گئ ہیں.
پارسی قبرستان کے احاطے میں ہی آخری رسومات کیلئے تقریباً 200 افراد کی گنجائش والا ایک ہال بھی ہے باہر رومن طرز کی عمارت سرخ رنگ کی اینٹوں اور پتھروں سے بنائی گئی ہے عمارت کے اندر اور برآمدے میں زرتشت(پارسی) مذہب کے بانی کی تصاویر اور اقوال آویزاں ہیں.
مرکزی دروازے پر ایک تختی لگی ہے جس لکھا ہے کہ قبرستان اس کی عمارت باؤنڈری وال،اور کنواں 1898میں سیٹھ جہانگیر جی فرام جی جسوالہ اور سیٹھ جماس جی ہوماس جی بوگا کے پوتوں سیٹھ دراب جی گواس جی جسوالہ اور سیٹھ نصرویج جی بوگا نے اپنے اپنے دادا کی یاد میں بنوایا تھا.
سیٹھ جماس جی بوگا سورت کے مذہبی پیشوا تھے، 21 مارچ 1884 کوان کا انتقال ہوا تاہم وہ مرنے سے ایک سال پہلے کراچی منتقل ہو گئے تھےاور بعد ازاں راولپنڈی آ کر یہاں جماس جی اینڈ سنز کے نام سے کاروبار شروع کیا.
سیٹھ جماس جی بوگا کے مرنے کے بعد ان کی اولاد نے ان کا شروع کردہ کاروبار کابل، جلال آباد ، پشاور، فیروز پور، حیدر آباد اور جیکب آباد تک پھیلا دیا، اسی پارسی قبرستان میں
مری بروری کمپنی کے مالک مسٹر ایم پی بھنڈار بھی دفن ہیں.
ایم پی بھنڈارہ آکسفورڈ اور ہاورڈ یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل اور تین بار قومی اسمبلی کے رکن بھیر رہے یہی نہیں بلکہ انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی ان کے بیٹے اسفندیار بھنڈارہ اس وقت انجمن پارسیاں راولپنڈی کے صدر ہیں.
موجودہ وقت میں اسفند بھنڈارہ ہی پارسی قبرستان کے امور کی نگرانی بھی کرتے ہیں، راولپنڈی کا یہ پارسی قبرستان ایک تاریخی ورثہ ہے جس کی تاریخی اہمیت کے نقطہ نظر سے دیکھنے اور برقرار رکھا گیا ہے.