دھبہ مٹادیں
طارق عثمانی
انسانی نفسیاتی بیماریوں پر اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر لکھی گئی "نفسیاتی دھبہ” والی تحریر بہت پسند کی گئی ہے۔ ترکی کے شہر استنبول میں مقیم بہت ہی پیارے دوست اے۔شکور خاں جو ایک بڑے ترکش ٹیلی ویژن نیٹ ورک سے وابستہ ہیں نے مجھے حکم دیا ہے کہ جس نیک کام کی شروعات کی ہے اسے ہر حال میں جاری رکھیے، رکیے گا مت۔۔! میں بھی کوشش کروں گا کہ اپنا حصہ ڈال سکوں۔
وہ لکھتے ہیں کہ انسان کی اپنی سوچ ہی انسان کی سب سے بڑی خیر خواہ یا دشمن ہوسکتی ہے۔
معاشرے کی تمام جسمانی بیماریاں انسان کی نفسیاتی بیماریوں سے جڑی ہوتی ہیں۔ نفسیاتی بیماریوں، ذہنی دباؤ اور ہیجانی کیفیت پر ہمارے سماج میں بات کرنے کا رواج ہی نہیں ہے.
لوگ دن بدن ذہنی مسائل میں الجھ کر شدید قسم کی پریشانیوں کا شکار ہو رہے ہیں اور طرح طرح کی جسمانی موذی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ مزاج میں نفسیاتی کمزوریوں سے سماج ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔ دوست دوستوں کے لطف سے محروم اور رشتے دار ، رشتے داریاں کھو چکے ہیں۔ ہم ایک بڑے انسانی المیہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
صحت مند معاشرے کی تعمیر، لوگوں میں مثبت سوچ کو اجاگر کرنے اور عام آدمی کے نفسیاتی مسائل اور اس کی کمزوریوں پر ہر حال میں ہر سطح پر بات جاری رکھنی ہوگی تاکہ لوگوں کا فائدہ اور بھلا ہو سکے اور اپنی کاوشوں سے مثبت، ذہنی اور جسمانی صحت مند معاشرہ پنپ سکے۔
حقیقت پسند مزاج کے حامل ملک تجمل حسین اعوان اور میرا تعلق گاؤں سانجھ کا بھی ہے، پیشے کے اعتبار سے وہ اقتصادی امور پر دسترس رکھتے ہیں۔ تقریباً تین دہائیوں سے برطانیہ میں رہتے ہیں۔ کبھی کبھار پاکستان آتے ہیں لیکن اپنے مذہب اور سماج کے ساتھ مکمل جڑے ہوئے ہیں۔ میرے کالم پر ملک تجمل حسین اعوان نے اپنے تبصرے میں لکھا:-
"یہ سچ ہے 90٪ جسمانی بیماریوں کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ ذہنی کیفیت اور نفسیاتی خلل سے ہے۔ منفی سوچ کے لوگ پہلے دماغی طور پر نفسیاتی اثر لیتے ہیں پھر جسمانی کمزوریوں میں مبتلا ہو کر اپنا آخیر خراب کرتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں مثبت سوچ رکھنے والا انسان ذہنی اور جسمانی طور پر اپنی عمر کے آخری حصے میں بھی لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے اور مرتے دم تک انسانوں کی بھلائی چاہتا ہے۔ انسانی نفسیات کو زیر بحث لا کر ہم ایک صحت مند معاشرہ تشکیل کر سکتے ہیں۔
سید اکرام بخاری کہنہ مشق صحافی ہیں، کہتے ہیں "ہم ماضی کا دکھ ہمیشہ حال میں یاد کر کے جیتے رہتے ہیں۔ تلخ تجربات کو یاد کر کر کے اپنے ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں ، یہ ہمارا مجموعی نفسیاتی مسئلہ ہے.
ماضی کی تلخیوں کو یاد کرنا اور زندگی کے ناخوشگوار واقعات کو روز تازہ کرنے والا انسان سخت قسم کا نفسیاتی مریض ہوتا ہے۔
مولانا وحید الدین خان اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں:-
"خارش کو کھجانے سے خارش بڑھتی ہے مگر جس آدمی کو خارش ہو وہ کھجائے بغیر نہیں رہ سکتا ایسا ہی کچھ معاملہ تلخ تجربات کا ہے۔ تلخ تجربات کو یاد کرنا صرف نقصان میں اضافہ کرنا ہے مگر اکثر لوگ تلخ تجربات کو اپنی یادوں سے نکالنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اس دنیا میں ہر آدمی کو تلخ تجربات پیش آتے ہیں۔
زندگی ایک اعتبار سے ناخوشگوار واقعات کا دوسرا نام ہے ایسی حالت میں تلخیوں کو اور ناخوش گواریوں کو یاد رکھنا اپنے ذہن پر غیر ضروری بوجھ ڈالنا ہے۔ جو قصہ ماضی میں پیش آیا اس کو حال میں یاد رکھنا صرف اپنے دکھ کا تسلسل جاری رکھنا ہے اس کو کسی طرح عقلمندی نہیں کہا جاسکتا۔
آپ کے ساتھ برا سلوک دوسرا شخص کرتا ہے مگر اس برے سلوک کی یاد خود آپ کے اختیار کی چیز ہے۔ پھر جو کچھ آپ کے دشمن نے کیا، وہی خود اپنے خلاف کیوں کریں۔ ماضی کی تلخیوں کو یاد رکھنا آدمی کے ذہن کو منتشر کرنا ہے۔
وہ آدمی کی صحت کو برباد کرتا ہے، آدمی سے اس کا حوصلہ چھین لیتا ہے۔ وہ آدمی کو اس قابل نہیں رکھتا کہ وہ دل جمعی کے ساتھ اپنا کام کر سکے۔ پھر آدمی کیوں اپنے آپ کو اس دہرے نقصان میں مبتلا کرے؟ اس دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کی یہ لازمی شرط ہے کہ آدمی بھلانے کی عادت ڈالے۔
وہ گزرے ہوئے تلخ تجربات کو بھول جائے۔ وہ کھوئی ہوئی چیزوں کے غم میں اپنے آپ کو نہ مبتلا کرے۔ لوگوں کی اشتعال انگیز باتوں کو سن کر وہ اپنے سکون کو برہم نہ ہونے دے۔ اس قسم کی تمام چیزوں سے غیر متاثرہ رہ کر اپنا کام کرنا، یہ زندگی کے رازوں میں سے ایک راز ہے.
جو لوگ اس راز کو جانیں وہی اس دنیا میں کوئی حقیقی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔کھوئے ہوئے کی تلافی اپنے اختیار میں نہیں ، مگر کھوئے ہوئے کو بھلا دینا اپنے اختیار میں ہے۔ ناخوشگوار الفاظ کو فضا سے نکالنا اپنے اختیار میں نہیں،
لیکن یہ آپ کے اپنے اندر اختیار میں ہے کہ ناخوشگوار واقعات کو اپنے ذہن سے نکال دیں۔ پھر آپ کیوں نہ ایسا کریں کہ ناممکن سے اپنی توجہ کو ہٹالیں اور ممکن کے حصول کے لیے اپنی ساری توجہ لگا دیں۔