افغانستان دھنس اور پاکستان پھنس گیا
سلیم صافی
امن کی ہلکی سی امید اب بھی باقی ہے لیکن افغانستان میں مفاہمت اور سیاسی حل کے امکانات دن بدن معدوم ہوتے نظر آتے ہیں۔ یہ خدشات پختہ ہوتے جارہے ہیں کہ افغانستان ایک ایسی تباہی کی طرف جارہا ہے کہ (خاکم بدہن) ہم ماضی کی تمام تباہیوں کو بھول جائیں گے۔ نتیجتاً پاکستان کے ساتھ بھی ایسا کچھ غلط ہونے والا ہے کہ جس کا کسی نے سوچا بھی نہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم اور چہیتوں کو ان باتوں کی سمجھ ہے، اس سے سروکار ہے اور نہ ہی ان میں ان کا کوئی کردار ہے، اس لئے وہ قوم کو فضول سیاسی باتوں میں الجھائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی ماضی کی احمقانہ افغان پالیسی کے حامی جشن منارہے ہیں کہ افغانستان آزاد ہورہا ہے اور وہاں پاکستان کے زیر اثر طالبان کی ایسی حکومت آرہی ہے کہ جو پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرے گی لیکن وہاں اسٹرٹیجک ڈیپتھ اور مذہب کے نام پر پاکستان کو الجھانے والوں کے عقل سے عاری جانشینوں کو اندازہ نہیں کہ افغانستان بری طرح دھنستا اور پاکستان بری طرح پھنستا جارہا ہے۔
بلاشبہ قطر مذاکرات جاری ہیں۔ جوبائیڈن نے افغان امن عمل میں بظاہرروس، چین، ایران، انڈیا اور ترکی یعنی علاقائی طاقتوں کو بھی آن بورڈ لیا ہے۔ امریکی افواج کا انخلا تیزی کے ساتھ جاری ہے اور بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی حل کی کوششیں ہورہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت اور طالبان ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت کرنے میں رتی بھر سنجیدہ نہیں۔
پاکستانی میڈیا میں ان خبروں کے لئے جگہ نہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے افغانستان کے مختلف علاقوں میں بدترین جنگ جاری ہے۔ امریکی تماشا دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ نے طالبان کے خلاف کوئی ایک گولی چلائی اور نہ طالبان نے امریکیوں کے خلاف لیکن دوسری طرف افغان سیکورٹی فورسز اور طالبان نے شمال سے لے کر جنوب تک جنگ ایسی گرم کی ہوئی ہے کہ روز درجنوں افغان لقمہ اجل بن رہے ہیں۔
مفاہمت کے امکانات معدوم دیکھ کر تمام گروہ ہتھیار جمع کررہے ہیں۔ صاحب حیثیت افغان دبئی، پاکستان اور دیگر ممالک میں ٹھکانے تلاش کرکے منتقل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ طالبان دن رات ٹریننگ میں مصروف ہیں اور ایک لاکھ کی منظم اور تنخواہ دار فوج بنارہے ہیں۔ سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ خود امریکہ امن لانے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہا۔زلمے خلیل زاد کی آنیاں جانیاں جاری ہیں۔ بظاہر امریکہ اپنے انخلا کیلئے بے چین اور سیاسی عمل کی کامیابی کیلئے بے تاب ہے لیکن عمیق نظری سے اس کے عملی اقدامات اور پالیسیوں کو دیکھا جائے تو یہ بھیانک حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ امریکہ جان بوجھ کر افغانستان کو خانہ جنگی کے سپرد کررہا ہے۔
امریکہ نے اشرف غنی حکومت کو ایک طرف رکھ کر طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے جس کی وجہ سے افغان حکومت کی حیثیت اور پوزیشن آسمان سے زمین پہ آگری۔ اسکی مرضی کے خلاف امریکہ نے طالبان کے ساتھ قطر میں ایسا معاہدہ کیا کہ جس میں طالبان کو دیا تو بہت کچھ لیکن ان سے لیا کچھ نہیں۔ امریکہ نے غیرملکی افواج کے مکمل انخلا کا مطالبہ مان کر طالبان سے جنگ بندی تک کی ضمانت نہیں لی۔
اس معاہدے کی رو سے امریکہ نے اشرف غنی حکومت سے بالجبر طالبان کے پانچ ہزار قیدی تو رہا کروا دئیے لیکن جواب میں طالبان سے صرف یہ بات منوائی کہ وہ افغان حکومت سے مذاکرات شروع کریں گے تاہم ایسی کوئی وضاحت نہیں تھی کہ اگر ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو پھر کیا ہوگا؟ چنانچہ ایک طرف افغان حکومت بےوقعت ہو گئی تو دوسری طرف طالبان کا مورال زمین سے آسمان پر پہنچ گیا۔
وہ اپنے آپ کو ایسی فاتح قوت سمجھنے لگے کہ جس نے امریکہ جیسی سپرپاور اور اس کے نیٹو جیسے اتحادیوں کو شکست دی۔ چنانچہ اب وہ افغان حکومت، جسے وہ امریکہ کی کٹھ پتلی سمجھ رہے تھے، کو کسی شمار میں ہی نہیں رکھتے اور پاکستان کو بھی کوئی خاص اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ قطر معاہدے کے بعد دنیا طالبان کو مستقبل کے حکمرانوں کے طور پر دیکھنے لگی ہے۔ دنیا کا ہر ملک ان کے ساتھ روابط استوار کرنے لگا ہے۔
چنانچہ طالبان مذاکرات سے تو انکاری نہیں لیکن انہیں کوئی جلدی ہے اور نہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدہ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جلد یا بدیر کابل ان کی جھولی میں گرنے والا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب وہ جنگ کے ذریعے اپنی امارت اسلامی دوبارہ بحال کرسکتے ہیں تو پھر مذاکرات اور آئین وغیرہ کے چکروں میں کیوں پڑیں؟
دوسری طرف اشرف غنی اور ان کی حکومت میں شامل لوگ سمجھتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کی کامیابی کا پہلا قدم یہ ہوگا کہ عبوری حکومت ہو جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی چھٹی ہو۔ عبدﷲ عبدﷲ، رشید دوستم، استاد محقق جو نان پشتون افغانوں کی نمائندگی کرتے ہیں کو تو اس صورت میں بھی حصہ بقدر جثہ مل جائے گا.
حامد کرزئی جیسے پختون بھی شاید اس میں اپنی جگہ بناسکیں لیکن اشرف غنی اور ان کی ٹیم کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ چنانچہ بظاہر تو افغان حکومت مذاکرات کی کامیابی کے لئے بڑی بے چین نظر آتی ہے لیکن عملاً اس کی کوشش ہے کہ اس میں کوئی پیش رفت نہ ہو۔ اشرف غنی کی حکومت مذاکرات کے دوران جو مطالبات طالبان سے کررہی ہے، اس کا طالبان کے لئے ماننا اسی طرح ناممکن ہے جس طرح طالبان کا مطالبہ ماننا افغان حکومت کے لئے۔
دوسری طرف طالبان پاکستان سے شدید ناراض نظر آتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران امریکہ کے دبائو پر پاکستان نے طالبان پر جو دبائو ڈالا یا اب ڈالوایا جا رہا ہے، اس سے دن بدن دونوں کے فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ طالبان اس بات پر بھی برہم ہیں کہ پاکستان نے کیوں یہ موقف اپنا لیا ہے کہ اسے ماضی کی طرح طالبان کی امارت قبول نہیں۔ امریکہ خود تو پے درپے طالبان کو رعایتیں دے رہا ہے لیکن پاکستان مسلسل پر دبائو ڈال رہا ہے کہ طالبان سے یہ منوالو، وہ منوا لو.
حالانکہ وہ جانتا ہے کہ طالبان کوئی بھی مطالبہ ماننے کو تیار نہیں۔ امریکہ خود تو وہ کچھ کررہا ہے کہ جس سے طالبان کو ہر لحاظ سے تقویت مل رہی ہے۔ امریکہ خود تو افغانستان سے بھاگ رہا ہے لیکن پاکستان سے افغانستان کی نگرانی کے نام پر اڈے مانگ رہا ہے۔ اب یہ کیا ہے؟ مجھے تو لگتا ہے کہ اپنی افواج نکال کر امریکہ افغانستان میں ایسی آگ بھڑکانا چاہتا ہے کہ جس کے شعلے پاکستان کو بالخصوص اور چین و ایران کو بالعموم جھلسادیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ سردست طالبان اور افغان حکومت کا جو رویہ ہے اس کی وجہ سے امریکہ کا یہ گھنائونا کھیل کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔ امریکہ کی اس سازش کو ناکام بنانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ طالبان اور کابل میں بیٹھے افغان، جنگ بند کرکے ایک دوسرے کو گلے لگائیں یا پھر چین، ایران، روس اور پاکستان مل کر افغانوں کی مشاورت سے کوئی راستہ نکالیں۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ)