بزدلی کا شکار مسلمان ممالک
انصار عباسی
کشمیر ہو یا فلسطین، ظالم اور اُس کا ظلم ساری دنیا کے سامنے ہے۔ نشانہ اسلام اور مظلوم مسلمان ہیں جن کا قتلِ عام ہو رہا ہے۔ کوئی گھر، کوئی مسجد محفوظ نہیں، یہاں تک کہ مسجدِ اقصیٰ، مسلمانوں کے قبلہ اول پر ظالم چڑھ دوڑے اور نماز پڑھتے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے جس کے لئے ستائیسویں رمضان المبارک کی رات کو چنا گیا۔ ایک طرف ظلم کرنے والا بھارت اور دوسری طرف اسرائیل۔ کشمیری ہوں یا فلسطینی، وہ بے حسی کی شکار دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ مسلم اُمہ سے مدد مانگ رہے ہیں۔
وہ ایٹمی پاور پاکستان کی فوج، ترکی کی فوج اور دوسرے مسلمان ممالک کی افواج سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ اُن مظلوموں کی مدد کی جائے، اُنہیں ظالموں کے ظلم سے بچایا جائے لیکن چند ایک مسلمان ممالک کی حکومتوں کی طرف سے مذمتی بیانوں سے آگے کچھ نہیں ہو رہا۔ ظالم کا ظلم بڑھتا جا رہا ہے، مظلوم کا خون بہتا چلا جا رہا ہے لیکن مسلم اُمہ، پچاس سے زیادہ مسلمانوں کے ممالک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کسی میں ہمت نہیں کہ ظالم کا ہاتھ روکے، مظلوم کی مدد کرے۔
یہ صورتحال کچھ ایسی ہی ہے جس کے بارے میں لله تعالی کے فرمان کا مفہوم ہے کہ بھلا کیا وجہ ہے کہ تم ا لله کی راہ میں اور اُن ناتواں مظلوم مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کی مدد کے لئے جہاد نہیں کرتے جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خود اپنے پاس سے حامی مقرر کر دے اور ہمارے لئے اپنے پاس سے مددگار بنا۔ اسلام تو ہر مظلوم کی مدد پر زور دیتا ہے اور یہاں تو مظلوم ہمارے مسلمان بھائی بہن ہیں۔
مسلمان بچوں سمیت بیگناہوں کو بیدردی سے قتل کیا جا رہا ہے اور ہم مسلمان، ہمارے حکمران اور ہماری افواج اپنی دینی ذمہ داری پوری کرنے میں مستعد دکھائی نہیں دیتیں۔ ظالم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی کھلے عام خلاف ورزی کر رہا ہے لیکن اقوامِ متحدہ خاموش ہے۔ او آئی سی تو مسلمانوں کی اپنی تنظیم ہے لیکن وہ بھی ایسے موقعوں پر زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کرتی اور عملی طور پر مکمل غیر موثر بلکہ اگر کہا جائے کہ ختم ہو چکی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ نجانے جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی زیر قیادت مسلمان ممالک کی فوج کہاں ہے، اُس کے بارے میں کسی کو علم ہو تو ضرور بتائے؟
مسلمانوں کی ایسی بے بسی، یہ سرد مہری، یہ توقیری۔ دولت ہے، اسلحہ ہے، فوج ہے، اسلامی ممالک کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن قوت و جوشِ ایمانی نہیں، جس کی وجہ سے مسلمان ممالک بزدلی کا شکار ہیں۔ ہاں اگر جنگ امریکہ کی ہو تو پھر دیکھیں مسلمان ممالک کے حکمرانوں اور ہماری فورسز کی پھرتیاں اور یہ وہ معاملہ ہے جس کی وجہ سے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ امریکہ کے حکم پر افغانستان کو تباہ و برباد کیا، عراق، لیبیا، شام اور دنیا کے ہر کونے میں مسلمانوں کا خون کبھی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے تو کبھی مہلک ہتھیاروں کے بہانے پر بہایا گیا۔
جب کہا جاتا ہے کہ مسلمان ممالک کی افواج کو فلسطینی مسلمان اسرائیل کے ظلم سے بچنے اور قبلہ اول کے دفاع کے لئے پکار رہے ہیں تو ایسا کہنے والوں کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ تم جہاد کے لئے کیوں نہیں چلے جاتے؟ جنہوں نے کشمیر میں جہاد کیا، جنہوں نے افغانستان میں جہاد کیا، اُن کے ساتھ کیا کِیا گیا، کیا ہم بھول سکتے ہیں؟ سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ کہ کیا مسلمان ممالک کی افواج پر جہاد فرض نہیں؟ کیا جہاد اُن کی بنیادی ذمہ داری نہیں یا کہ اُنہوں نے صرف امریکہ کی جنگیں لڑنی ہیں؟ سب کچھ ہونے کے باوجود آج دنیا میں سب سے زیادہ
مظلوم مسلمان ہیں۔ کشمیر ہو یا فلسطین مسلمانوں کے تنازعات کو اقوامِ متحدہ کی قرارداروں کے باوجود حل کرنے میں کسی کو دلچسپی نہیں۔
مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے، اُنہیں نفرت اور بغض کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کی گستاخی وہاں ایک معمول بن چکا ہے کیوں کہ اُنہیں معلوم ہے کہ مسلمان ممالک نے اس کے جواب میں اگر زیادہ سے زیادہ کچھ کیا بھی تو چند ایک ممالک کی طرف سے مذمتی بیان آ جائیں گے جس کی اُنہیں کوئی فکر نہیں۔ اب تو مسلمان ممالک کے اندر بھی مغربی اصولوں اور مغربی کلچر کو لاگو کئے جانے پر خوب کام ہو رہا ہے اور اسلامی اصولوں اور اسلامی شعائر کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ مسلم اُمہ ہمارے خوابوں میں ضرور ہے، ہمارے خیالوں میں بھی ہوگی لیکن اس کی کوئی عملی شکل کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ تو مسلمانوں کے بدترین زوال کا دور ہے۔ یہ زوال کا سفر کب اور کہاں رکے گا، کچھ معلوم نہیں۔
( بشکریہ روزنامہ جنگ)