فحش اور فحاشی کی نئی تعریف
وقار حیدر
فُحشن لفظ کا لغوی معنی لیا جائے تو بنتا ہے بدکاری ، بیہودگی ، بے شرمی کی باتیں ، گالی یا پھر بدکلامی۔ اگر اظہار کی بات کی جائے تو ایسے کلمے جس میں جنسی امور کا برہنہ اظہار ہوا ہو ، عریاں اور بے ہودہ الفاظ کا چناؤ کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح فحش نگاری کی بھی تعریف کی گئی ہے (گندی باتیں لکھنے والا ، بیہودہ لکھنے والا ، وہ ادیب یا مضمون نگار جو جنسی بے راہ روی کا برہنہ الفاظ میں ذکر کرے)
یہ جو تعریف آپ اُوپر دیکھ رہے ہیں یہ سب تقریبا ایک صد سالہ پرانی تعریفوں سے نکلی ہیں اور آج بھی انہی تعریفوں کو درست تصور کیا جاتا ہے ۔ لیکن اب ہمیں فحش یا فحاشی کی نئی تعریف کرنا ہوگی ۔۔ ہمیں فحاشی کی نئی جہتوں پر غور کرنا ہوا ، نئے اسلوب کیساتھ الفاظ کی ترتیب دینا ہوگی ۔۔ معاشرہ نے 100 سالہ ورق پرتا ہے 21 ویں صدی میں بھی اگر وہی پرانی ، باپردہ ، حجابانہ الفاظ والی تعریف آج بھی کی جائے تو شاید یہ نسل نو کے ساتھ زیادتی گردانی جائیگی ۔
دیکھئے اگر لفظ فحش کی تعریف کرنی ہے تو یقینا وہ فحش ہی ہوگی اگر آپ کو وہ فحش محسوس نہ ہو تو سمجھ جائیےگا یہ تعریف اس لفظ کی صحیح عکاسی نہیں کرتی۔ مسئلہ اتنا ہے کہ آج تک فحاشی کو انسانی جسم کے نشیب و فراز کی قید میں رکھا گیا ہے اور شاید آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا لیکن پھر بھی کوشش کرتے ہیں کہ اس بار ایسی تعریف کی جائے جو اس لفظ کے حساسیت کا احاطہ کر سکے۔
کسی پر فریفتہ ہو کر اسکی حساسیت کو شرم کے لبادہ سے نکال کربیان کرنا فحش کہلائے گا ۔۔ یہ تعریف خود لفظ فحش سے لی گئی ہے۔يعني ف سے فریفتہ ح سے حساسیت اور ش سے شرم کو نکالا گیا ہے ۔۔ لیکن یہ آنکھوں سے اترنے والے نظارے کیونکر کسی ذہن پر عریان الفاظ کے حروف منعکس کرتے ہیں یہ سمجھنا ابھی باقی ہے ۔ دورِ حاضر کیلئے ایک دوسری تعریف بھی کی جا سکتی ہے ۔۔۔ بے دھڑک جنسی احساسات کی عریان بیانی کو فحاشی کہتے ہیں
عام طور پر فحاشی کا دروازہ رنڈی کے بالاخانے کی طرف کھلتا ہے اور سب سے پہلا گمان یا پھر خیال اسی طاقچے پر دستک دیتا ہے جہاں پر کسی فاحشہ کا کوٹھا نظر آتا ہے
اُدھر منٹو کہتا ہے میری ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آ رہا ہے۔۔۔ اس کی غلاظت، اس کی بیماریاں، اس کا چڑچڑاپن، اس کی گالیاں یہ سب مجھے بھاتی ہیں۔۔۔ میں ان کے متعلق لکھتا ہوں اور گھریلو عورتوں کی شستہ کلامیوں، ان کی صحت اور ان کی نفاست پسندی کو نظر انداز کر جاتا ہوں۔
لیکن منٹو کو کہنا چاہوں گا کہ صاحب زمانہ بدل گیا ہے آپ کا گوشت پوشت جیسے مٹی بن گیا ہے ویسے ہی اب فحاشی رنڈی کے بالا خانے سے اُتر کر گاؤں کی گلیوں اور شہر کے محلوں اور سیکٹرز سے گزرتی ہوئی اس طور سے در و دیوار میں داخل ہوئی ہے کہ اب ہر اُٹھتی نظر اسکی گرفت میں ہے۔
یہ فحاشی عوام الناس کے اذہان پر دستک دیتی ہے ہر لمحے نئی جہت سے ظاہر ہوتی ہے ہر قسم کے رنگ و روپ کیلئے نئے الفاظ گھڑتی ہے اور اجسام کے نشیب و فراز کو بیان کرنے کیلئے الفاظ کا ایسا جالا بنتی ہے کہ کوئی بھی مکھی یا بھنورا اس میں اٹک سکتے ہیں۔
ہمارے مہذب دور میں اس کو خوبصورتی کی تعریف کہا جاتا ہے۔۔ پہلے تعریف چھپے ہوئے ،حیادار الفاظ سے کی جاتی تھی جیسے ہرنی سی چال، ہرنی جيسي آنکھیں، ناگن زلفیں، کوئل سی آواز اور تو اور ایک شاعر نے کیا ہی اچھے انداز میں بدن کو بیان کیا ہے لکھتے ہیں کہ
مِٹھاس اُترتی ہے پُوروں میں اُس کو چھونے سے ۔۔۔۔۔ ہم اُس بدن کو پَھلوں میں شُمار کرتے ہیں
لیکن اب ان الفاظ کي جگہ نئے الفاظ نے لے لی ہے ۔۔ فرنگیوں کی لغت اپناتے ہوئے تعریفی الفاظ بدل دیئے ہیں ، یعنی اب جب کوئی صنف مخالف کی تعریف کرتا ہے تو کچھ ایسے کلمات میں
you’er looking hot, Sexy looks, اور اس سے بھی بڑھ کر you got nice figuers مطلب پہلی نظر جو کبھی جادو کیا کرتی تھی آجکل سکین کیا کرتی ہے آپ اسکو X-ray بھی کہہ سکتے ہیں۔
اب کیا ان کلمات کو بیہودہ یا برہنہ کہا جا سکتا ہے ؟ ان الفاظ کی گونج اب کسی رنڈی کے کوٹھے پر سنائی نہیں دیتی بلکہ دیہات ہوں یا شہر ہر جگہ ہی انکا ورد جاری ہے بس الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں ، انداز بدل سکتا ہے لیکن اب یہ فحش الفاظ فطرت بن چکے ہیں اور فطرت بدلتی نہیں ۔۔
خواتین کو کبھی شرم و حیا کے پیکر سے تشبیہہ دی جاتی تھی اور ایسے الفاظ سے انکی تعریف کا تصور تک نہ ہوتا تھا لیکن معاشرہ میں اب ان الفاظ کی جگہ بن چکی ہے اب صنف نازک بھی ایسے الفاظ کو معیوب یا فحش تصور نہیں کرتی اور مرد تو پھر مرد ہوتے ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں خواتین و مرد سب برابر ہو گئے ہیں ۔۔ اب مردو زن اپنا اپنا کماتے اور لگاتے ہیں اب تو رنڈیوں کیساتھ Play boys بھی دستیاب ہیں اور وقعتا فوقتا ان سے خدمات لی جاتی ہیں ۔۔ منٹو صاحب آج ہوتے تو یقیناً رنڈی کیساتھ ان رنڈوں کو بھی ہیرو مانتے۔
چونکہ ہمارا معاشرہ اسلامی حدود قیود کا پابند ہے تو اس لیے فحاشی سے متعلق ایک سطر تحریر کیے دیتے ہیں ۔۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۔۔ وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲)
ترجمہ : اور بدکاری کے قریب بھی نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے
اس آیت میں واشگاف الفاظ میں فحاشی سے روکا گیا ہے۔
اب مرد بھی عجب منطق پیش کرتے نظر آتے ہیں ۔۔ کہتے ہیں آجکل لباس ہی بے حجابانہ ہیں ، پہلے لباس جسموں کو چھپانے اور ستروں کو ڈھانپنے کیلئے پہنے جاتے ہیں آجکل لباس ہی ایسے ہیں کہ جسموں کی نمائش بھی ساتھ کی جا رہی ہے تو نمائش تو دیکھنے ہر کوئی جاتا ہے ۔۔۔جبکہ خواتین کا کہنا ہے کہ حیا تو آنکھ میں ہوتی ہے، نظریں نیچی رکھنے کا حکم مرد کو دیا گیا ہے۔ اب فحش نظروں کو کہا جائے پھر ایسے لباس کو فحاشی کہا جائے یہ طے کرنا معاشرے کا کام ہے اور دراصل یہی معمہ بھی ہے جو حل طلب ہے۔