گناہ ٹیکس !
شمشاد مانگٹ
موجودہ حکومت کا جہاز اڑان بھرنے کیلئے ابھی”ٹیکسی“ کررہا ہے۔لیکن اس دوران حکومت نے صرف ٹیکس لگانے کے مختلف طریقے کامیابی سے ڈھونڈ نکالے ہیں۔سگریٹ نوشی پر حکومت نے ”گناہ ٹیکس“ لگا کر ثابت کردیا ہے کہ یہ”فرشتوں“ کی حکومت ہے کیونکہ یہ کام فرشتے ہی کرسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کی نیکیوں اور گناہوں کا حساب کتاب رکھنے کیلئے دائیں اور بائیں کندھے پر فرشتے بٹھا رکھے ہیں۔
البتہ اللہ تعالیٰ نے ہر گناہ کی سزا کا معیار مختلف رکھا ہوا ہے۔چونکہ اللہ تو پوری کائنات اور آسمانوں کا مالک ہے اس لئے وہ گناہوں کو معاف کرنے کا بھی اختیار رکھتا ہے اور بندہ چونکہ اللہ تعالیٰ کا نائب ہے اس لئے وہ گناہ کی کھلم کھلا معافی کا حق نہیں رکھتا۔البتہ گناہ پر ٹیکس لگانا اس کے اختیار میں ہے۔موجودہ حکومت کے نزدیک سگریٹ نوشی گناہ ہے اس لئے سگریٹ پینے والا اس پر ٹیکس ادا کرے گا۔
موجودہ حکومت کو چاہئے تھا کہ پہلے یہ فیصلہ کرتی کہ ٹیکس دینا گناہ ہے یا ٹیکس نہ دینا گناہ ہے۔کیونکہ پاکستان کے بڑے تاجروں نے وزیراعظم کو شکایت کی ہے کہ ہم نیک نیتی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن ہماری ٹیکس ادائیگی ہمارے لئے گناہ بن چکی ہے۔ایف بی آر کے افسران ٹیکس چوروں کو پکڑنے کی بجائے ہمارے خلاف ہی شکنجہ کسنے پر لگے ہوئے ہیں۔جو لوگ پہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں انکو مزید رگڑا لگانا کہاں کا انصاف ہے؟ایف بی آر کی حرکت پر وزیراعظم عمران خان نے انہیں خبردار کیا ہے کہ ٹیکس دینے والے تاجروں کو تنگ نہ کیا جائے۔
گناہ ٹیکس کے نفاذ کے ساتھ وفاقی حکومت کو اسلامی نظریاتی کونسل کا فتویٰ بھی عام کرنا چاہئے تھا جس میں ملک بھر کے علماء کرام کی طرف سے یہ پیغام بھی دیا جاتا کہ جس گناہ کا ٹیکس ادا کردیا جائے وہ”جائز“ ہے کیونکہ سگریٹ پر ٹیکس ادا کرکے پینے سے اب سگریٹ پینا جرم نہیں ہے۔
سگریٹ پر گناہ ٹیکس عائد کرنے کے بعد حکومت کو چند اقدامات اور بھی کرنا چاہئیں۔ان اقدامات سے ملکی معیشت کو بھرپور فائدہ ہوسکتا ہے۔مثال کے طور پر اسلام آباد سمیت ملک کے تمام بڑے اور قدرے چھوٹے شہروں میں عصمت فروشی کے اڈے پولیس کی زیر نگرانی چل رہے ہیں۔عصمت فروشی کے تمام اڈے درحقیقت پولیس سرکار کو ”گناہ ٹیکس“ ادا کرکے اپنا دھندہ کرتے ہیں۔بڑی سرکار اگر ایف بی آر کو اس سلسلے میں متحرک کرے تو پولیس کے منہ سے ”ٹیکس نوالہ“ چھین کر قومی خزانہ میں لایا جاسکتا ہے۔اس کا دوسرا حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس تھانے کی حدود میں جتنے عصمت فروشی کے اڈے چل رہے ہیں اس حساب سے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او سے”گناہ ٹیکس“ وصول کرلیا جائے۔
اسی مد میں غیر قانونی طور پر پولیس کو بڑے پیمانے پر”گناہ ٹیکس“ ادا کرکے چلنے والے شراب خانے بھی ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔چھوٹے بڑے تمام شہروں میں زہریلی اور کچی شراب فروخت کا دھندہ کرنیوالوں سے پولیس اپنا”ٹیکس“ وصول کرکے انہیں موت بانٹنے کی اجازت دیتی ہے۔زہریلی شراب پینے سے جب لوگ مرتے ہیں تو متعلقہ تھانے کی پولیس اصل ملزمان کو گرفتار کرنے کی بجائے شہریوں کو توبہ استغفار کا ورد کرنے کی نصیحت کر رہی ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ اس جملے کا ورد بہت زیادہ کر دیتی ہے کہ ”برے کاموں کے برے انجام“۔حکومت چاہے تو ایف بی آر کے ذریعے غیر قانونی تمام شراب خانوں کو ”گناہ ٹیکس“ کے دائرے میں لاکر انہیں نہ صرف ٹیکس نیٹ میں لاسکتی ہے بلکہ انہیں شراب کی بہتر کوالٹی پر مجبور بھی کرسکتی ہے۔
ویسے تو پوری قوم ہرچیز پر ٹیکس دیتی ہے لیکن ان پڑھ ہونے کی وجہ سے حکومتوں کی اس واردات سے بے خبر رہتی ہے قوم کی اسی بے خبری کا فائدہ اٹھا کر حکومت کو چاہیے کہ”گناہ ٹیکس“ کا دائرہ کار وسیع کردے۔مثال کے طور پر تمام گوالوں پر فی کلو دودھ میں ملاوٹ کے حساب سے گناہ ٹیکس لاگو کیا جاسکتا ہے، ویسے بھی حکومت ملاوٹ روکنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے،اس لئے دو نمبری کرنے والے ہر شہری کو چھوٹ دیدے کہ وہ”گناہ ٹیکس“ ادا کرکے جو مرضی ہے کرتا پھرے۔
گناہ ٹیکس عائد کرتے وقت حکومت اگر اسلامی نظریاتی کونسل کو اعتماد میں لے لیتی تو بڑے فائدے ہوسکتے تھے کیونکہ اسلامی نظریاتی کونسل بہتر طور پر بتا سکتی تھی کہ ”گناہِ کبیرہ ٹیکس“ کیلئے کون کون سی قومی وارداتیں معیشت کو بہتر کرنے میں معاون ہوسکتی ہیں اور ”گناہِ صغیرہ ٹیکس“کن کن چیزوں پر لگ سکتا ہے؟غیرمعیاری کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والے بھی اس ”گناہ ٹیکس“ کے ذریعے ایف بی آر کیلئے بہتر ملزم ہوسکتے تھے اوراس کے علاوہ وہ بااثرلوگ جو براہِ راست تھانوں میں جاکر خطیر رقم کے عوض انصاف کا سودا کر لیتے ہیں ان کے لئے بھی ”گناہ ٹیکس“ کے ذریعے اس ”گناہِ کبیرہ“ کا راستہ آسان کیا جاسکتا تھا۔
ابھی حکومت کے ساڑھے چار سال باقی ہیں اس لئے بہتر ہے کہ حکومت اب بھی اسلامی نظریاتی کونسل سمیت حکومتوں کے قریب رہنا پسند کرنے والے علماء کرام کو بلا کر ”گناہ ٹیکس“ کی اقسام اورافادیت پر سفارشات مرتب کروا کر پارلیمنٹ میں لے آئے اور پارلیمنٹ بھی”گناہ ٹیکس“ دیکر انکی منظوری کرسکتی ہے کیونکہ گناہنگاروں کی گناہگار پارلیمنٹ”گناہ ٹیکس“کیلئے رکاوٹیں دور کرسکتی ہے۔
اس بہترین ”ٹیکس نظام“ کیلئے مولوی قوّی جیسے ”نیک اور پرہیزگار“ علماء کرام بہت سود مند ہوسکتے ہیں کیونکہ مولوی قوّی جیسے علماء اگر”ٹھمکے“لگانا جائز سمجھتے ہیں تو یہ کام ان کے بائیں ہاتھ کا ہے ۔گناہ ٹیکس کو مئوثر کرکے حکومت آئی ایم ایف سے لئے گئے قرض پر ”سودی گناہ“ سے بھی بچ سکتی ہے ۔عدالتوں میں جھوٹ پکڑنے والی مشینیں لگا کر جھوٹ پر ”گناہ ٹیکس“ سے کم ازکم اتنی آمدن ہوسکتی ہے کہ انصاف تک رسائی آسان ہو گی۔نیب حکام بھی پلی بارگین جیسا گھٹیا نام بدل کر بدعنوان ملزمان پر ”گناہ ٹیکس“ لگا کر اچھی خاصی ریکوری کرسکتے ہیں۔