اپوزیشن 31دسمبر کواستعفوں سے بھاگ گئی،فروری میں لانگ مارچ کااعلان
لاہور(زمینی حقائق ڈاٹ کام)پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ 31 دسمبر کو استعفے دینے کے اعلان سے پیچھے ہٹ گئی اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا جنوری کے آخر یا فروری کے آغاز پرجب لانگ مارچ کریں گے تو استعفے ساتھ لے کر جائیں گے۔
حکومت مخالف گیارہ جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے لاہور کےجلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ادارے کھوکھلے ہوگئے، ملکی معیشت تباہ ہوگئی، لوگوں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا، مہنگائی کا دورہ دورہ ہے، ایک حکومت جب ناجائز ہے تو اسے برطرف کرنے کے لیے قوم کو اور نوجوانوں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی ڈی ایم کے
سربراہی اجلاس میں ان نکات پر اتفاق کیا کہ پارلیمنٹ کی حکمرانی ہوگی، پارلیمنٹ کو یرغمال نہیں ہونے دیا جائے گا، آزادانہ الیکشن کیلئے اصلاحات اور عوام کے جمہوری حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔میڈیا اور صوبوں کے حقوق کا تحفظ، آزادی رائے اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا۔
مولانا نے کہا نے کہا کہ سیاست سے اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ اداروں کا کردار ختم کرنا ہوگا، ملکی معاملات میں بہتری کے لیے اصلاحات کی جائیں گی، عوامی حقوق، صوبوں کے حقوق اور اٹھارہویں ترمیم کا تحفظ کیا جائے گا، اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی پر قدغن نہیں لگائے جائے گی، مہنگائی کا خاتمہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف کچھ نہ کرسکی اس کی دو وجوہات ہیں، یا تو ہم اتنے کمزور ہوگئے کہ کشمیر کا تحفظ نہیں کرسکے یا ہم نے خاموشی سے بھارت کے ہاتھوں کشمیر کا سودا کردیا، عمران خان نے مودی کے ہاتھ کشمیر کو بیچ دیا، ہم کشمیر کی تقسیم کا فارمولا منظور ہونے نہیں دیں گے.
مولانا فضل الرحمان نے لانگ مارچ کے وقت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جنوری کے آخر یا فروری کے آغاز میں حکومت کے خلاف اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے جس میں پی ڈی ایم جماعتیں اپنے استعفی ساتھ رکھیں گے بالآخر ہم حکومت گراکر ہی دم لیں گے۔
جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ مینار پاکستان ہی نہیں آس پاس کی سڑکیں بھی بھر چکی ہیں، لاہور تمام صوبوں کے لیے بڑے بھائی نہیں بلکہ سگے بھائی کا کردار ادا کرے گا، کیوں کہ ہم سب ایک جیسے ہیں، ہم اسلام آباد اور پورے ملک کو ایک ساتھ جوڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ لاہوریوں نے آج مینار پاکستان پر ایک تاریخ رقم کی ہے اور عوام دشمن کو اس مینار سے اتار کر پھینک دیا ہے، 2011ء میں جس جعلی تبدیلی کا آغاز اس مقام سے ہوا تھا آج لاہوریوں نے اسے ہمیشہ کے لیے یہاں دفن کردیا۔
انہوں نے کہا کہ جو شخص خدا کے لہجے میں این آر او نہ دینے کا اعلان کرتا تھا آج نواز شریف سے این آر او مانگ رہا، تابعدار خان این آر او نہیں دیا جائے گامریم نواز نے کہا جب سےکورونا سے زیادہ خطرناک مرض عمران خان آیا ہے پاکستان میں ترقی، چینی، گندم ، آٹا، بجلی، گیس، میڈیا، عوام کا روزگار، دوا قرنطینہ میں چلی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تابعدار خان نے کہا کہ اپوزیشن مجھے جانتی نہیں، ہم تمہیں اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ ملک کا بچہ بچہ جان گیا ہے جو نہیں جانتے آج میری تقریر سے جان لیں گے.
ان کا کہنا تھا کہ 2011ء میں عمران خان کا جلسہ آئی ایس آئی چیف شجاع پاشا نے کروایا تھا، 2013ء کے انتخاب میں جب عمران خان کو عبرت ناک شکست ہوئی تو سمجھ آگیا کہ تابعداری کے بغیر وزیر اعظم نہیں بن سکتے، جسٹس کھوسہ کے ساتھ مل کر نواز شریف کو اقامے پر نااہل کروایا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو یقین تھا کہ نواز شریف کے ہوتے ہوئے کوئی مستقبل نہیں جانتے، ان کے سلیکٹرز کو نہیں معلوم تھا کہ یہ اتنا نالائق ہوگا بلکہ عمران خان کو بھی نہیں پتا تھا کہ یہ اتنا نالائق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ عوام خرچ کیا جائے گا لیکن آج ینگ ڈاکٹر، اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکر، سرکاری ملازمین سڑک پر ہیں، پنشنر اور عوام سڑک پر ہیں، نہ کوئی نیا اسپتال بنا اور نہ ہی کوئی تعلیمی ادارہ، خیبر ٹیچنگ اسپتال میں سات مریض بروقت آکسیجن نہ ملنے پر جان کی بازی ہار گئے، دواؤں کی 600 گنا قیمت بڑھا دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حکومت پر مالم جبہ، میٹرو، بلین ٹری سونامی منصوبہ، مہنگا آٹا، چینی، گیس اور بجلی کے اسکینڈل ہیں، عوام ایک دن ان سب باتوں کا حساب لے گی۔
مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف کو غدار اور انڈیا کا یار کہتا ہے، قوم بتائے کہ کیا نواز شریف کا ایک بھی مطالبہ آئین سے متصادم ہے؟ کیا اداروں کو آئین کی حدود میں رہنے کا مطالبہ، آزاد عدلیہ اور میڈیا کا مطالبہ غیر آئینی ہے؟ کیا آئین توڑنے والے کے خلاف آرٹیکل 6 کا مطالبہ غیر آئینی ہے؟
مریم نواز نے جلسے کے شرکا سے مخاطب ہوکر کہا کہ وعدہ کرو اگر اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کے لیے نکلنا پڑا تو نکلو گے اور وہاں جتنے دن رکنا پڑا تو رکو گے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اب مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے اب بات چیت نہیں ہوگی بلکہ لانگ مارچ ہوگا، حکومت سن لے ہم اسلام آباد آرہے ہیں، پیپلز پارٹی نے لاہور سے تحریک کا آغاز کیا، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد اسی شہر میں رکھی، کوڑے کھائے، جیل کی صعوبتیں برداشت کیں مگر آمریت کے سامنے سر نہیں جھکایا۔
انہوں ںے کہا کہ آج ہم تاریخ کے بہت اہم موڑ پر کھڑے ہیں، آج نااہل اور ناجائز حکمرانوں کے پاس ووٹ کا مینڈیٹ نہیں، یہ حکمران ووٹ کے راستے سے نہیں بلکہ کسی اور راستے سے اقتدار میں آئے، انہیں اقتدار میں لانا عوام کا نہیں فیصلہ نہیں ہے۔
اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی آج کے جلسہ میں بھی شریک نہیں ہوئے تاہم ان کے نمائندہ میاں افتخار حسین نے قرار دادیں پیش کیں اور کہا کہ اس عظیم الشان کے توسط سے اس حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم پاکستان کی وفاقیت کی علامت ہے، اس کو کسی صورت نہ چھیڑا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بے گناہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے، بے گناہ ہوتو رہا اور اگر گناہ گار ہوں تو سزا دی جائے، پمز ہسپتال میں ایک آر ڈیننس جاری ہوا ہے جہاں ڈاکٹروں اور ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں اور اس کو جلدی واپس لیا گیا۔
افتخار حسین نے کہا کہ گوادر شہر کے گرد لگائی گئی باڑ کی مذمت کرتے ہیں اور اس کو جلد از جلد ہٹایا جائے، کورونا اور وبا سے جان بچائی جائے، ماسک، سنیٹائزر کو استعمال کیا جائے لیکن ہم عمرانی کورونا کو نہیں مانتے ہیں۔
جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے کہا کہ جلسوں کو جلسی کہا گیا اورمیں بھی ان کو جلسے نہیں کہتا بلکہ ان کو میں ان غیر جمہوری قوتوں، آمروں کی پیداوار کا، طاقتوں جنہوں نے 70 برسوں سے اس ملک کے آئین کو اپنےگھرکی لونڈی سمجھا ہوا ہے ان جلسوں کو نماز جنازہ سمجھتا ہوں۔
اختر مینگل نے کہا کہ ‘بلوچستان میں جو شورش ہے کیا اس کے ذمہ دار ہم ہیں یا کوئی اور ہے، 70 برسوں میں ہم نے ایک دن بھی چین کا نہیں دیکھا، ہمارے گاؤں اجاڑ دیے گئے، ہمارے بچے چھین لے گئے، ماؤں کے سامنے ان کے نوجوان بچوں کا قتل عام کیا گیا لیکن ہم نے جمہوریت کا پرچم بلند رکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج آپ جن نام نہاد حکمرانوں، خلائی مخلوق، اس قوت کے خلاف جس نے آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر ہمیشہ ردی کی ٹوکری میں پھینکا ہے، اس کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ان کے غیر انسانی اور غیر اخلاقی فیصلوں کا ذمہ دار کون ہے۔
جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ ساجد میر نے کہا کہ میں لاہور کے شہریوں کو مبارک باد اور خرج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت کی تمام رکاوٹوں اور جھوٹے ڈراموں کے باوجود اور روکنے کے باوجود مینار پاکستان کے سائے میں عظیم الشان اورقابل دید جلسہ ہو رہا ہے۔
ساجد میر نے کہا کہ عمران خان کا بنایا ہوا یہ نیا پاکستان کیسا لگ رہا ہے، نام نہاد پاکستان سے وہی پاکستان اچھا تھا جس میں مہنگائی آج کے مقابلے میں بہت کم تھی اور عوام دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ نئے پاکستان کی حکومت قرنطینے میں ہے، معیشت کو آئی سی یو میں ڈال دیا ہے اور عوام مہنگائی اور بہت سی مشکلات کا شکار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ بیانیہ نواز شریف کا نہیں بلکہ پوری اپوزیشن اور پی ڈی ایم کا ہے، اس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا استعمال مختلف ہوسکتا ہے لیکن اس بیانیے کی تصدیق ہر شہری کر رہا ہے۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن بات کرنا چاہتے ہیں تو ان سے کریں، اگر وہ نہیں مانتے ہیں تو ترکی کے طرز پر انقلاب کی بات پکی ہوگئی ہے۔ اگر ہماری اسٹبلشمنٹ پیچھے نہیں ہٹی تو مریم نواز آپ رہنمائی کریں، ہم آپ کا بھرپور ساتھ دیں گے۔
جلسہ گاہ پہننچے سے قبل پی ڈی ایم کے صدر اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ، مریم نواز، سردار اختر مینگل اور میاں افتخار حسین مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق کے گھر پہنچے جہاں انہیں ظہرانہ دیا گیا۔
اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ریلی کی قیادت کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق کے گھر پہنچے، جس کے بعد وہاں مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں اہم اجلاس ہوا۔
پی ڈی ایم رہنماؤں کے اجلاس میں آئندہ کے لائحہ سے متعلق مشاورت کی گئی، جس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنما سردار ایاز صادق کی رہائش گاہ سے جلسہ گاہ روانہ ہوئے۔