ٹرانس جینڈرز حقوق کی بڑی تنظیم کی سربراہ انمول رضا بخاری
ثاقب لقمان قریشی
نام: انمول رضا شاہ بخاری
رہائش : ساہیوال
عہدہ:۔ چیف ایگزیکٹو زندگی ویلفیئر سوسائٹی۔ ٹرانس جینڈر کمیونٹی ساہیوال کی فوکل پرسن اور ڈویژن کارڈینیٹر
خاندانی پس منظر:
ساہیوال کے با اثر بخاری خاندان سے تعلق ہے۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہیں۔والدہ کی وفات بچپن میں ہی ہوگئی تھی۔جبکہ والد صاحب 2012 میں فوت ہوئے۔
والد صاحب بھٹو صاحب کے ہم جماعت اور قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ بھٹو صاحب جب بھی ساہیوال کا دورہ کرتے انکے گھر کا چکر ضرور لگاتے تھے۔ بچپن میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی اپنے گھر میں دیکھ چکی ہیں۔
انمول رضا شاہ بخاری کی، زمینی حقائق ڈاٹ کام ،سے ایک خصوصی نشست کا احوال کچھ یوں ہے.
سوال: بچپن میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟
میری پیدائش پر والدین نے بہت خوشیاں منائیں۔ چلنے پھرنے کے قابل ہوئیں تو لڑکیوں والی حرکتیں کرنےلگیں۔ شروع شروع میں والدین نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ والدین کی پریشانیاں بھی بڑھنا شروع ہوگئیں۔ پہلے پہل سمجھانے کے ساتھ ہلکی پھلکی پٹائی لگا دیا کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ تایا، چاچا اور سوتیلی والدہ کی طرف سے بدترین تشدد کا نشانہ بنتی رہیں۔
اکثر گھر میں قید کر دیاجاتا تھا۔موقع ملنے پر گھر سے بھاگ کر گلی کے کونے میں بیٹھ کر خوب رویا کرتی تھی۔ روتے روتے سو جاتی، آنکھ کھلتی تو اپنے ساتھ کتوں کو سویا ہوا پاتی۔ کتوں کے خوف سے گھر کی طرف بھاگتی، زور زور سے دروازہ کھٹکھٹاتی۔ گھر والوں سے معافی مانگتی کہ آئندہ کبھی لڑکیوں والی حرکت نہیں کروں گی۔ مار پیٹ کر دوبارہ کمرے میں بند کر دیا جاتا۔
سوال: سکول میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟ تعلیم کہاں تک حاصل کی؟
پڑھائی میں بہت اچھی تھی۔ ہمیشہ اچھے نمبروں سے امتحانات پاس کرتی رہی۔ وقت سے پہلے سکول جانا، کلاس کی جھاڑو لگانا، پانی کے مٹکے کو بھر کر رکھنا معمول تھا۔ چھوٹی کلاسوں میں مانیٹر ہوا کرتی تھی۔ جیسے جیسے بڑی جماعتوں میں جاتی گئی بچوں کا رویہ تبدیل ہوتا چلا گیا۔ بچے ہر وقت مذاق اڑاتے تھے، طرح طرح کے القابات سے نوازتے تھے۔ سطحی الفاظ اور ہر وقت کی چھیڑ چھاڑ سے مایوس ہو جایا کرتی تھی۔میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ ایف اے پرائیویٹ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو پائیں۔
سوال: فیصل آباد کے میلے میں پولیس نے آپ اور آپ کے والد صاحب کو کیوں پکڑا؟
گھر کی سختیوں اور معاشرے کے ناروا سلوک سے تنگ آکر ٹرانس جینڈرز سے دوستیاں بڑھانا شروع کر دیں۔ ایک خواجہ سراء نے فیصل آباد کے میلے کا ذکر کیا پھر انھیں اپنے ساتھ میلے میں لے گئی۔ گھر لے جا کر اپنے ساتھ کھانا کھلایا کپڑے پہننے کو دیئے۔ اسکی محبت شفقت نے انھیں بہت متاثر کیا۔
میلے میں جانے کی خبر جب والد صاحب تک پہنچی تو وہ میلے میں آگئے۔ انمول کو بالوں سے گھسیٹا اور مارنا شروع کر دیا۔ اتنا ماراکے بے ہوش ہوگئی۔ آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو تھانے میں دیکھ کر حیران رہ گئی۔
ایس ایچ او کے دریافت کرنے پرانمول نے بتایا کہ یہ والد صاحب ہیں اور مار کی وجہ میلے میں خواجہ سراء بن کر آنا ہے۔ اس نے گالیاں بکتے ہوئے دو تھپڑ رسید کیئےاور انھیں والد کے ساتھ چلتاکر دیا۔
گھر پہنچنے پر ایک کمرےمیں بند کر دیا گیا اور باہر سے تالا لگا دیا گیا، سوتیلی ماں کو ہدایت کی کہ اگر یہ کمرے سے باہر نکلی تو تمھارے ساتھ اچھا نہیں ہوگا۔ کھانا پینا بند کر دیا گیا۔ باتھ روم بھی جانا ہوتا تو ماں کی منت کرنا پڑتی۔ وہ بیچاری سارے گھر کو تالے لگا کر کمرے سے باہر نکالا کرتی۔
سوال: کیا والد صاحب کے ساتھ تعلقات کبھی اچھے بھی رہے ہیں؟
گھر میں کچھ عرصہ قید رہنے کے بعد والد صاحب سے معافی مانگ لی ۔ پھر انکے ساتھ ہی رہا کرتی تھی۔ کچھ دن بہت اچھے گزرے لیکن معاشرتی رویوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ جہاں جاتی لوگ طرح طرح کے القابات سے نوازتے۔جس پر گھر والوں کو بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔
سوال: آپ کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کو معاف کیوں کر دیا گیا؟
ہمارا معاشرہ ٹرانس جینڈرز کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھتا ہے، جس کی وجہ سے ٹرانس جینڈرز مردوں کیلئے آسان ترین شکار تصور کیئے جاتے ہیں۔ ٹرانس جینڈرز کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے بیشتر واقعات رپوٹ تک نہیں ہوتے۔ 1995 میں گاؤں کے کچھ بااثر افراد کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا نشانہ بنی۔ والد صاحب نے ایف-آئی-آر تک کٹوا دی لیکن بااثر افراد نے کچھ سیاسی شخصیات کو کیس میں ڈال کر معاملے کو رفع دفع کروا دیا۔
اس واقعے کے بعد ذہنی تناؤ کا شکار ہوگئی۔ سب سے بات کرناچھوڑ دی، غصہ آہستہ آہستہ نفرت میں تبدیل ہو گیا ۔ گھر چھوڑنے کے بارے میں سوچنے لگی۔
سوال: گھر کیوں اور کن حالات میں چھوڑا؟
گھر والے محلے اور رشتہ داروں کی باتوں سے تنگ آکر کبھی کمرے میں بند کرتے تو کبھی خوفناک تشدد کا نشانہ بناتے ۔ روز روز کی مار دھاڑ سے تنگ آ کرگھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ایک ٹرانس جینڈر دوست اپنے ساتھ گھر لے گئی۔ اس کے گھر والوں کا رویہ عام لوگوں سے کافی مختلف تھا۔ سارے گھر والے انمول سے بہت پیار سے پیش آتے۔یہ لوگ میلوں میں ڈانس کر کےکچھ پیسے کما لیا کرتے تھے۔کچھ عرصے میں بال بھی بڑے ہوگئے، میک اپ کرنا بھی آ گیا اور خواتین والےکپڑے بھی پہننا شروع کر دیئے۔
سوال: ٹرانس جینڈرز کی دنیا میں اپنے آپ کو کیسے ایڈجیسٹ کیا؟
انمول ٹرانس کہتی ہیں جینڈرز کے جس گروپ کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔اس میں پانچ وقت کی نماز اور قرآن کی تلاوت باقاعدگی سے کی جاتی تھی۔ غیر مرد کو گھر میں گھسنے کی اجازت نہیں تھی۔ ڈانس صرف پیٹ بھرنے کیلئے کیا جاتا تھا۔اچھا کھانا، اچھا پہننا، جی بھر کے سونا، مرضی ہو تو کام پر جانا جیسی چیزوں نے انھیں بہت متاثر کیا۔ مختصر سے عرصے میں خواجہ سراؤں کے قوانین اور طور طریقے سیکھنے میں کامیاب ہوگئی ۔
سوال: کیا ڈانس کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی ہے؟
مختصر سے عرصے میں انمول کے ڈانس کے چرچے دور دور تک ہونے لگے۔اپنی بہترین صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کرنے کیلئے مہاراج کتھک کی شاگردی میں چلی گئی اور کتھک ڈانس جیسا مشکل فن سیکھنا شروع کر دیا۔ مختصر سے عرصے میں مہارت حاصل کر لی۔ مہاراج کتھک کے ساتھ گزرے وقت کو اپنی زندگی کا بہترین دور قرار دیتی ہیں۔
سوال: اکھاڑہ لائن کیا ہوتی ہے؟ اس میں کیسے آئیں؟
بڑے میلوں میں اکھاڑوں کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں مزاحیہ فنکاروں کو بھی بلایا جاتا ہے۔ فنکار جگتیں کستے ، نقلیں اتارتے اور ڈانسر نے جگتوں کے مطابق ڈانس کرنا ہوتا ہے۔ انمول نے اکھاڑہ لائن میں استاد چوہے خان چھبر کو اپنا استاد بنا لیا جو استاد تافو خان کے شاگرد تھے۔جوانی میں کافی عرصہ میلوں کی زینت بنی رہیں، پنجاب کے مختلف شہروں میں لگنے والے میلوں میں انھیں خاص طور پرمدعو کیا جاتا تھا۔ لوگ ان کے فن کی تعریف کیئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ آہستہ آہستہ جوانی ڈھلتی رہی نئے فنکار میدان میں آگئے اور پھر انھیں اس فیلڈ کو خیر آباد کہنا پڑا۔
سوال: زندگی ویلفیئر فاؤنڈیشن کیوں بنائی؟
ٹرانس جینڈرز پر ہونے والے تشدد کے واقعات کو دیکھ رویا کرتی تھی۔ ظلم اور جبر کے نہ رکنے والے سلسلے نے احتجاج کرنے پر مجبور کر دیا۔ وقت کے ساتھ حوصلے میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پھر ہمت کر کے اپنی این-جی-او بنا لی۔ جسے آج تک رجسٹر نہیں کروا سکی۔
سوال: آپ کی این-جی-او کیا کام کرتی ہے؟
زندگی ویلفیئر ٹرانس جینڈرز، بچوں، بے سہارا عورتوں اور معذور افراد کے حقوق پر کام کرتی ہے۔ اس وقت زندگی ویلفیئر کے پاس چھ سو سے زائد خواجہ سراء رجسٹرڈ ہیں۔زندگی ویلفیئر انکے ، علاج، تعلیم اورہنر کیلئے کام کرتی ہے۔ اسکے علاوہ تھانہ کچہری، شناختی کارڈز، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سے جڑے کاموں میں معاونت فراہم کرتی ہے۔یہ سارے کام مقامی ڈونرز کی مدد سے کیئے جاتے ہیں۔
سوال: پنجاب پولیس، سوشل ویل فیئر اور خواجہ سراء ایسوسی ایشن کی جانب سے کتنے پیسے مل جاتے ہیں؟
انمول نے بتایا پنجاب پولیس کی جانب سے کارڈینیٹر کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں، سوشل ویل فیئر کی جانب سے ساہیوال کی فوکل پرسن ہیں اسکے علاوہ خواجہ سراء ایسوسی ایشن ساہیوال کی صدر بھی ہیں۔ لیکن تینوں اداروں سے تنخواہ نہیں ملتی۔ انمول کہتی ہیں کہ پیٹ بھر کے کھانا مل جائے تو خدا کاشکر ادا کرکے کھا لیتی ہیں نہ ملے تو اس کی رضا سمجھ کر سو جاتی ہیں۔
سوال: مکان کا کرایہ اور بجلی کا بل کیسے ادا کرتی ہیں؟
ساتھی فاؤنڈیشن کے ساتھ بھی کام کر رہی ہیں جہاں سے ملنے والی تنخواہ سے مکان کا کرایہ اور بجلی کا بل ادا کر دیتی ہوں باقی سب اللہ توکل چل رہا ہے ۔
سوال: کیا 2017 کی مردم شماری میں ٹرانس جینڈرز کے اعداد وشمار درست بیان کئے گئے ہیں؟
2017 کی مردم شماری میں ٹرانس کمیونٹی کو پہلی بار شامل کیا گیا۔ پورے ملک کی ٹرانس کمیونٹی اس بات پر خوش تھی مردم شماری کے اعداد وشمار سے نہ صرف ڈیٹا مرتب کیا جانا تھا بلکہ مسائل کی نشاندہی بھی ہونی تھی جسکی بنا پر قانون سازی، پالیسیاں اور مستقبل کا لائحہ عمل طے ہونا تھا۔ لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ مردم شماری کے غلط اعداد و شمار نے نہ صرف ٹرانس جینڈرز کو مایوس کیا بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بھی تباہ کر کے رکھ دیا۔
سوال: خواجہ سراء کمیونٹی نے خود سے اعداد و شمارکیسے مرتب کئے؟
خواجہ سراء کمیونٹی نے مردم شماری کے نتائج کو یکسر مسترد کرتے ہوئے خود سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کا ٖفیصلہ کیا ۔ پورےملک کی این-جی-اووز نے اپنے طورپر ملک کے تمام ڈیروں اور گروؤں سے ڈیٹا اکھٹا کیا۔ اس ڈیٹے کی روشنی میں ملک میں خواجہ سراء کمیونٹی کی تعداد ایک لاکھ 93ہزار مرتب کی گئی۔
سوال: ساہیوال میں ٹرانس جینڈرز کو درپیش چیلنجز کیا ہیں؟
پورے ملک کے ٹرانس کمیونٹی کے مسائل ایک ہی جیسے ہیں گھر والے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے جسکی وجہ سے یہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ جائیداد کے حق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ عزت کا کام کرنا بھی چاہیں تو کوئی نوکری نہیں دیتا۔
ساہیوال ایک چھوٹا شہر ہے یہاں غربت ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے جسکی وجہ سے ٹرانس پیٹ پالنے کیلئے جسم فروشی تک کر نے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اگر حکومت ڈیروں کو رجسٹرڈ کرکے ان میں تعلیم، وکیشنل ٹریننگ اور ہوم انڈسٹری کو فروغ دینے کا اہتمام کرے تو ٹرانس کمیونٹی معاشی طور پر مستحکم ہوسکتی ہے۔
سوال: ٹرانس جینڈر زکیلئے کون سے شعبے موضوع ترین ہیں؟
ٹرانس جینڈرز ہر کام کرسکتے ہیں۔تمام شعبئہ زندگی ٹرانس جینڈرز کیلئے کوٹہ مختص ہونا چاہیئے۔ اسکے علاہ فلم، ڈرامہ، ڈانس اور تھیٹر میں کام کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ انمول اپنی کمیونٹی کو پارلیمنٹ میں بھی دیکھنے کی خواہش مند ہیں۔
سوال: کھانا بنانا آتا ہے؟ کیا چیز اچھی بنالیتی ہیں؟
کھانا بڑے شوق اور اہتمام سے بناتی ہوں ۔ اپنے ہاتھ کا بنا کھانا پسند کرتی ہوں ۔بازار کا کھانا بالکل پسند نہیں ۔مٹر قیمہ، شملا مرچ، کڑاہی اور پلاؤ پسندیدہ ترین ڈشز ہیں۔
سوال: فارغ وقت میں کیا کرناپسند کرتی ہیں؟
گھر میں اکیلی رہتی ہوں ۔ فارغ اوقات میں قران پاک کی تلاوت اور عبادت کرنا پسند ہے۔ اسکے علاوہ بہت سے پرندے پال رکھے ہیں۔فراغت میں ان سے باتیں کرتی ہوں ۔
سوال: مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہیں؟
این-جی-او رجسٹرڈ کروا کے اپنی کمیونٹی کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنا چاہتی ہوں ۔ ایک انڈیپینڈنٹ لوئنگ سینٹر بنانا چاہتی ہوں جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کوزسز، سلائی،کڑھائی، بیوٹی پارلر، کوکنگ، بینکنگ اور دین کی تعلیم دی جاتی ہو۔
سوال: اپنی کمیونٹی کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
اپنی کمیونٹی سے کہنا چاہتی ہوں کہ وقت کی قدر کرنا سیکھیں، سوشل میڈیا پر اپنا ٹائم ضائع مت کریں۔ تعلیم اور ہنر وہ چیزیں ہیں جن کی مدد سے ٹرانس جینڈرز اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتی ہیں۔