مردانہ کمزوری کچھ نہیں ہوتی،گلاں ای بنیاں نیں
شمائلہ حسین
فحاشی اور عریانی قرار دے کر جنسی مسائل کو زیربحث ہی نہ لانا، خود کئی مسائل کا موجب ہے۔ جنسی امور سے جڑی کم آگہی خاص طور پر نوجوانوں کے لیے سنگین ذہنی اور جسمانی مسائل پیدا کرتی ہے۔
جب سے اردو لکھنا پڑھنا سیکھی ہے، تب سے میں ہر چھوٹے بڑے شہر کی دیواروں پہ مردانہ کمزوری دور کرنے اور شباب واپس لانے کے اشتہار دیکھتی چلی آرہی ہوں (ظاہر ہے ان میں گالا بسکٹ والی فحاشی تو بالکل نہیں ہے) بچپن میں یہ تجسس اس قدر تھا کہ ایک دن اپنے بھائی کو احتلام اور جریان سے متعلق سوال داغ دیا۔
ایک بار اپنے ابا سے پوچھ بیٹھی کہ ابوجی مردانہ کمزوری کیا ہوتی ہے اور یہ شباب کسے کہتے ہیں۔ ایسے ہر سوال کا جواب آپ سمجھ ہی سکتے ہیں کہ کون کب اور کیا دے سکتا ہے ۔ایسے سوالوں کے خمیر نے سوچ کا جو ملغوبہ تیار کیا. اس میں یہی سمجھ آیا کہ کسی بھی یونانی دواخانے میں جانے والا ہر شخص مردانہ کمزوری کا شکار ہوتا ہے۔
اس نتیجے کو مزید تقویت ان لطیفوں نے پہنچائی جن میں شادی سے قبل کسی تگڑے حکیم سے رابطے کے مشورے دیے جاتے تھے۔ پھر اتفاق کچھ یوں ہوا کہ بہنوں، دوستوں اور کزنز کی شادیاں ہوئیں تو ان میں سے اکثر کو شکایت تھی کہ اولاد نہ ہونے کی وجہ شوہر کی کمزوری ہے۔
آپ شاید یقین نہ کریں لیکن اس اتفاق کا سامنا آس پاس ہونے والی ہر شادی کے بعد یوں ہوا کہ دس میں سے تین چار خواتین عین یہی بات آپس میں سرگوشیاں کرتے ہوئے بتا رہی ہوتی ہیں۔ جن کے ہاں اولاد ہے وہاں بھی معاملات کچھ ایسے نہیں کہ سب کے شوہر کوئی راسپوٹین ہوں۔ اولاد ہوبھی گئی تو بہت سے دوسرے مسائل کا سامنا بہرحال ان جوڑوں کو رہتا ہی ہے۔
رہی سہی کسر بہتر رہنمائی نہ ہونے کے سبب اتائی حکیموں کے ہتھے چڑھ کر پوری ہو جاتی ہے۔ یہ اتائی ڈاکٹر یا حکیم اپنی دکان چمکانے کے لیے اچھے خاصے بندے کو احساس کمتری کا شکار کردیتے ہیں اور انہیں اس کمپلیکس میں ڈال کر اپنے کشتے بیچتے رہتے ہیں۔ اس کا اندازہ بھی مجھے نہ ہوتا اگر میرے بھانجے اور ایک دوست کے بیٹے کے ساتھ ایسا واقعہ نہ ہوا ہوتا۔
چونکہ ذاتی طور پر میں بچوں کو اتنا بے تکلف کرنا ضروری خیال کرتی ہوں کہ وہ اپنے مسائل مجھے بتا سکیں تو میرے ایک بھانجے نے مجھے کال کر کے بتایا کہ اسے ایک حکیم صاحب کہتے ہیں کہ وہ جنسی طور پر کمزور ہے لہٰذا اسے جلد از جلد اپنا علاج کروانا چاہیے اور فوراً سے پہلے شادی کر لینی چاہیے۔
اب بیس اکیس سال کا لڑکا جو اپنی ایجوکیشن مکمل کر رہا ہے اور ابھی تک کسی جنسی تجربے سے گزرا بھی نہیں اسے یہ یقین دلا دینا کہ وہ جنسی حوالے سے کمزور ہے اور پھر یہ کہنا کہ اسے پانچ ہزار کی دوا لے کر کھانے کی بہت ضرورت ہے ورنہ وہ ہمیشہ کے لیے نامرد ہوجائے گا، یہ سب نوجوانوں کو گمراہ کرکے پیسے چھاپنے کا گھناؤنا کھیل ہے۔ ہمارے ہاں ان موضوعات پر اپنے بچوں کو کبھی گائیڈ نہیں کیا جاتا۔ اس کے پیچھے وہی روایتی سوچ ہے کہ اپنے بچوں سے گندی باتیں کون کرے۔
بڑے فخر سے ماں باپ بتاتے ہیں کہ ہمارا بچہ بہت ذہین ہے لیکن اتنا ہی معصوم ہے۔ یہ معصومیت عموماً کچھ نہ جاننے کا دوسرا نام ہوتا ہے۔ ہماری نسل کا بچپن اور جوانی اسی معصومیت میں گزر گئے اور ہمیں بہت بڑے ہونے تک یہ بھی معلوم نہیں ہونے دیا گیا تھا کہ ہمیں کسی سے آخر خطرہ کیا ہے۔ ہمیں یہ تک نہیں پتہ ہوتا تھا کہ ہمارا کنوار پن دراصل کسی مرد سے بات کرنے پر ختم نہیں ہو جاتا۔
مجھے یونیورسٹی میں اپنی وہ کلاس فیلو یاد ہے جو یہ سمجھتی تھی اگر لڑکے کا ہاتھ بھی لڑکی کے ہاتھ کو لگ جائے تو وہ ماں بن جاتی ہے۔ ہم اسے بتا رہے تھے کہ نہیں اس کے لیے نکاح ہونا ضروری ہے کیونکہ نکاح کے فوراً بعد عورت کو حمل ہوجاتا ہے۔ دراصل ہم اپنی "معصومیت "میں یہ سمجھتے تھے کہ نکاح کوئی منتر ہے جس سے بچے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
ہمارے متجسس ذہن کو ہمیشہ ڈانٹ ڈپٹ کے یا تھپڑ مار کے سوال، سوچنے اور کرنے سے روک دیا جاتا رہا۔ اب بھی بہت سے والدین اسی کلیے پر عمل کرتے ہیں۔ مذہب، سیاست اور سماجی رسوم و رواج کے متعلق سوالات کا گلا آج بھی گھونٹ دیا جاتا ہے۔ البتہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی نے اب نوجوانوں کو اپنی ضرورتیں اور مسائل سمجھنے میں کچھ مدد ضرور دی ہے لیکن ابھی بھی بہت سے لوگ کم علمی، ناواقفیت اور توہم پرستی کے نرغے میں ہیں۔
حکیموں کی دکانیں ابھی بھی اسی آب وتاب سے چلتی ہیں اور وہ کسی بھی شخص کو یہ یقین دلا سکتے ہیں کہ اگر وہ پورن موویز کے اداکاروں کی طرح پرفارم نہیں کر سک رہے تو انہیں دوا کی سخت ضرورت ہے۔ چودہ پندرہ سے بیس سال کی عمر کے نوجوان نئی جسمانی تبدیلیوں اور انرجی سے متعارف ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں پورن ویب سائٹس تک رسائی کے آلات ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ انہیں جنسی عمل سے آگاہی تو ہوجاتی ہے لیکن کوئی رہنمائی حاصل نہیں ہوتی کہ اس آگہی اور کچھ کر سکنے کی طاقت کا صحیح استعمال کب، کہاں اور کیسے کرنا ہے۔
وہ خود ہی الٹے سیدھے تجربوں سے سیکھنے کے بعد ایسا بندر بن جاتے ہیں جس کے ہاتھ میں ماچس آ گئی ہو اور جب تک وہ سنبھلتے ہیں اپنا یا قریبی کسی دوست، رشے دار یا کسی بھی کمزور فریق کا جنسی اور ذہنی استحصال کر چکے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے معاملات چونکہ رپورٹ نہیں ہوتے اس لیے بہت کم کیسز منظر عام پر آتے ہیں۔ ان کی مثال پچھلے دنوں بلی کے بچے کا ریپ، ایک چودہ سال کے بچے کے ہاتھوں سات ماہ کی بچی کا ریپ اور ایسے دیگر واقعات ہیں۔
بعض اوقات یہی بچے اپنے ہم عمروں سے جنسی تعلق بنانے کی کوشش میں ایسی حرکات میں ملوث ہو جاتے ہیں جن کے بعد پکڑے جانے کی صورت میں معاشرتی سطح پر لعنت ملامت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بدلے میں وہ یا تو متشدد ہوجاتے ہیں یا پھر نفسیاتی طور اتنا ڈسٹرب ہو جاتے ہیں کہ اس سارے عمل سے ہی خوفزدہ ہوئے رہتے ہیں۔
ان مسائل کاسامنا ہر طبقے کے نوجوانوں کو کرنا پڑتا ہے۔ بظاہر بہت ماڈرن رہن سہن والے گھروں میں بھی بچوں کے ان مسائل پر بات نہیں کی جاتی۔ بچیاں بھی اپنے ساتھ ہوئی کسی حرکت کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈرتی ہیں اور اکثر تو انہیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔
اگر وہ والدہ یا اساتذہ میں سے کسی کے پاس اپنا مسئلہ لے کر جائیں تو عموماًبہت سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ ایک ادارے کی سربراہ کا ماہواری کی تکلیف سے پریشان چھٹی مانگتی طالبہ سے کہا ہوا یہ جملہ مجھے آج تک یاد ہے، ” آپ نے یہ کیا بے حیائی اور بے شرمی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
ایسا ردعمل نوجوانوں میں عزت نفس مجروح ہونے کا باعث بنتا ہے اور وہ اپنی کوئی بھی بات اپنے بڑوں سے کرنے میں جھجھکنے لگتے ہیں، پھر اپنے ہی جیسے ناسمجھ دوستوں سے الٹا سیدھا سیکھتے اور اسی سینہ گزٹ علم کو آگے پہنچا دیتے ہیں۔اپنے بچوں کے ان مسائل پر توجہ دیں جو بڑھتی عمر کے ساتھ آپ کو بھی دیکھنے پڑے تھے۔ انہیں الٹے سیدھے وہموں میں پڑنے سے بچائیں ۔
کسی بھی قسم کی کمزوری سے زیادہ خطرناک کمزوری خود ہمارے بچوں سے ہمارا تعلق کمزور ہونا ہے، بچوں کے دوست بنیں اور ان کی درست سمت میں رہنمائی کریں ۔ انہیں نفسیاتی و جنسی مریض بننے سے صرف آپ خود بچا سکتے ہیں ۔ بچا لیجئے!
(بشکریہ ڈی ڈبلیو ڈاٹ کام)