بنی گالہ والی سرکار
محبوب الرحمان تنولی
کوئی تربوز باہر سے ہٹہ کٹا اور چمکتا ہوا ہو۔۔ ہو بھی مہنگا اور آپ پورے ڈھیر سے چھانٹی کرکے خرید لائے ہوں۔۔۔ گھر پہنچ کر کاٹیں تو اندر سے سفید یا خراب نکل آئے تو آپ کا کیا قصور ؟
یا تو تربوز فروش کوگالی پڑے گی ۔۔ یا پھر آپ کہیں گے میری قسمت ہی اچھی نہیں ہے۔۔۔بس سمجھ لیں یہی قسمت پاکستانیوں کی بھی ہے۔
بڑی چھانٹی کرکے غریبوں اورریاست مدینہ کی بات کرنے والے پر بھروسہ کرلیا۔
اس شخص نے پہلا سال سابق حکومت کے قرض لینے ۔۔ کرپشن اور سابق حکمرانوں کے عیب گنواتے گزار دیئے۔۔ عوام اس لئے بجلی ، گیس، آٹا ، پٹرولیم مصنوعات سمیت اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں بڑھنے پر خاموش رہی کہ ملک پھنسا ہوا ہے اور ایک شخص اسے کھینچ کر نکال رہاہے دلدل سے۔
اسی شخص نے اعلان کیا کہ حکومت کا دوسرا سال بے روزگاروں کو روز گار دینے کا ہے۔۔۔ایک کروڑ نوکریاں دینے کا تووہ ہدف مقرر کرکے مسند نشیں ہوا تھا۔۔دوسرا سال بھی جب نوکریاں دینے کی بجائے چھیننے میں گزر گیا تو مجھ جیسوں کو شک ہوا ہمارا تربوز بھی سفید نکل آیاہے۔
چونکہ چوائس ہماری اپنی تھی اس لئے دل پر پتھر رکھ لیا اور زبان بندی جاری رکھی۔
پھر جب تیسر اسال شروع ہوا ۔۔۔معیشت ادھر ہی پھنسی تھی بلکہ مزید تھنس چکی تھی دلدل میں۔۔بے روزگاری کا سیلاب آگیا۔۔ میڈیا میں تو حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے جھاڑو پھرگیا۔۔
ایسے میں قومی بینکوں کے،، دادا ابو ،،سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نوید سنائی ہے کہ اگست 2020ء تک حکومتی قرضوں کا کل حجم 35 ہزار 600 ارب روپے سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔
اگست 2019ء میں حکومتی قرضوں کا حجم 32 ہزار 240 ارب روپے تھا۔ اس طرح ایک سال کے دوران قرضوں کے حجم میں مجموعی طور پر 3 ہزار 419 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک سال کے دوران طویل مدتی بانڈز کی فروخت سے 13 ہزار 391 ارب روپے کے قرضے لئے گئے۔ 30 جون 2020ء تک قرضوں کا کُل حجم 35 ہزار 105 ارب روپے تھا۔ رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں حکومت نے 554 ارب روپے کا نیا قرض لیا۔
ایسے میں جب آپ کراچی سے خنجراب تک نظر دوڑائیں تو آپ کو اس حکومت کا کوئی ایسا منصوبہ بھی نظر نہیں آتا جو قرضوں کی رقم ریت کی طرح جذب کرتا جارہا ہو۔۔۔ کوئی نئی موٹروے نظر نہیں آتی۔ ۔۔ کوئی بڑی یونیورسٹی یا اسپتال نہیں بنا۔۔کوئی بڑا ادارہ نہیں بنا ۔
سب کو چھوڑیں عوام کو کوئی ریلیف دینے کی بجائے خان صاحب حسب عادت عوام سے ہی قربانی مانگتے دکھائی دیئے ہیں ۔۔کرپشن کرپشن کا رولہ اور شور ڈالا گیاہے۔۔۔ ایک ایک پائی کا حساب لینے والے مبینہ کرپٹ رہنماوں سے ایک پائی واپس نہیں کروا سکے۔
بلکہ حال یہ ہے کہ اگر نیب کی تحقیقات کے اخراجات اور آفیشل کے اندرونی و بیرونی دوروں، ہوٹلوں میں قیام اوردیگر اخراجات کا حساب کیا جائے تو یہ ایک نیا سکینڈل سامنے آ سکتاہے۔۔
پاکستان اگرایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے تو حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں کی وجہ سے مگر موجودہ حکومت نے اس کی سزا قوم کو ایسی دی ہے کہ تیل نکال دیا ہے عام آدمی کا۔۔۔ بنی گالہ والی سرکار جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے تاحال ہر چیز مہنگی ہوتی چلی گئی۔
پٹرولیم منصوعات کو تو ایسے پر لگے کہ ایک دن میں26روپے مہنگا ہونے کا ریکارڈ بنا۔۔ حافظہ سب کا تیز ہے بھائی۔۔۔ سب کو یاد ہے آپ نے پٹرولیم مصنوعات سستی کی تھیں تو پٹرول مارکیٹ سے غائب ہو گیا تھا۔۔
آپ کی پٹرول مارکیٹ میں لانے کیلئے دی گئی دھمکیاں ہم نے منتیں ترلوں میں بدلتی دیکھیں اور ایک رات پتہ چلا کہ پٹرول26روپے مہنگا ہو گیاہے اور اگلی صبح مارکیٹ میں پٹرول کی فراوانی تھی۔
ہم تو انتظار کرتے رہے گئے کہ سکون کا سانس لے سکیں۔ ۔ لیکن آپ نے گرز برسانے کا سلسلہ ختم نہ کیا اوپر سے ہر تقریب میں کہتے ہو گھبرانہ نہیں ہے۔۔بے شک فاقوں سے مرتے رہیں۔ بیمار ہو کر اسپتال بھرتے رہیں۔۔آمدنی کم اور قرضوں کے بوجھ تلے دبتے رہیں مگر گھبرانہ نہیں ہے۔۔۔اور اوپر سے انتظامی دسترس کا یہ عالم ہے کہ کورونا میں سکول کی فیسیں اور یوٹلیٹی بلز میں دیا گیا ریلیف سکولوں نے بھی واپس لے لیا۔۔ بجلی گیس کے بلز میں بھی ریلیف میں دی گئی رقم دوبارہ کاٹی جارہی ہے۔
آپ آواز لگاتے جائیں ۔۔ گھبرانہ نہیں ہے۔۔۔آپ نے کیوں گھبرانہ ہے؟
آپ نے کبھی مہینے بھر کا سودا سلف خریدا ہو۔۔ سبزی ، گوشت ،دال چاول لینے مارکیٹ گئے ہوں تو آپ کو پتہ چلے ۔۔آپ کی طرح ہر کسی کو تو سپانسرڈ دوست نہیں ملتے ناں۔۔۔جوخرچے بھی پورے کرتے ہوں اور چرچے بھی نہ ہوں۔
لیکن جناب وزیراعظم!
ہمیں آپ سے گلہ ہے ۔۔مہنگائی کی منہ زور طوفان میں لوگ فاقہ کشیوں تک پہنچ گئے۔۔لیکن آپ کی حکومت بجلی، گیس ، پٹرول ، چینی اورآٹا سمیت روز مرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بڑھاتی چلی گئی۔
اب جب 65روپے کلووالی چینی100کی بکنے لگی۔۔8سو والا آٹے کا تھیلاساڑھے 12سو تک پہنچا۔۔بجلی کا فی یونٹ 20روپے سے اوپرچلاگیا تو آپ نے پہلے بھر پور ایکشن لے کر قیمتیں کم کرانے اور اعتدال پر لانے کادعویٰ فرمایا۔
اگلے دن ہم نے وزیراعظم کی طرف سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اعلان سنا۔۔ خان صاحب نے فرمایا کہ مہنگائی کا جائزہ لینے اور کنٹرول کرنے کیلئے ٹائیگر فورس کو ذمہ داریاں دی جائیں گی۔۔۔یہ ٹائیگر فورس ہے کیا؟ اس کی قانونی حثیت کیا ہے؟
کیا اس کے اجتماع پر اٹھنے والے اخراجات کی کوئی قانونی حثیت ہے؟ ملک بھر میں انتظامی مشینری کس لئے رکھی ہوئی ہے؟
پرائس کنٹرول کمیٹیاں۔۔ ضلعی انتظامیہ کاکیا کام ہے؟ یہ اقتدار کے ایوانوں سے چمٹے ہوئے،، تازہ تازہ رہنما ،،صرف اے سی کی کرسیوں پر بیٹھنے کیلئے ہیں۔۔ یہ معاونین خصوصی کی بہار۔۔ایسے میں یہ پی ٹی آئی کے ویل وشرز ٹائیگرز ایکشن میں ہوں گے تو ان کے جھگڑے۔ غیر قانونی اقدامات کے کیسز کا کون ذمہ دار ہوگا؟
خدارا اس قوم پر رحم کریں وزیراعظم صاحب۔۔۔ اب تک کے آثار بتارہے ہیں آپ اس ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔۔پہلے اگر ملک پھنساتھا تو اب آپ نے عوام کو بھی پھنسا دیاہے۔
آپ نے کرپشن کے الزامات میں بڑے بڑے ناموں کو جیلوں میں ڈالا ۔۔ عوام کو کیا ملا؟
آپ نے3ہزار419ارب روپے کا مزید قرضہ لے لیا۔۔ عوام کو کیا ملا؟
فرض کیا آپ نے پی ایم ہاوس اور دیگر دفاترکے اور سرکاری اخراجات کم کئے۔۔عوام کو کیا ملا؟
آپ نے اربوں روپے قرضوں کی اقساط اداکیں۔۔۔عوام کو کیا دیا؟
آپ نے اوورسیز پاکستانیوں کے زریعے زر مبادلہ میں اضافہ کی نوید سنائی۔۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو کیا دیا؟
فرض کیا آپ کرپشن نہیں کرتے۔۔بہت ایماندار سربراہ مملکت ہیں ۔۔ ۔ مہنگائی میں پسے عام آدمی کا پیٹ آپ کی ایمانداری سے تو نہیں بھرے گا ناں۔
آپ کے نقاد یہ بات بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ حکومت نے کرپشن نہیں کی۔۔یہ بات ہمیشہ سے ریکارڈ پر ہے کہ جب تک حکومتیں چلتی ہیں۔۔ سکینڈلز سامنے نہیں آتے۔۔ اقتدار کی کرسی خالی ہوتے ہی بیوروکریسی اور سرکار ی اہلکار فائلیں کھول کھول کر سب کو دکھانا شروع کردیتے ہیں۔
زیادہ شوگرنوشی پر جہانگیر ترین صاحب کو اقتدار کی غلام گردشوں سے دور ہونا پڑا۔۔ لیکن ایکشن کیا ہوا۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔
ادویات کی قیمتوں میں تین سو سے زائد فیصد اضافہ پر عامر کیانی صاحب کو وزارت چھوڑنا پڑی۔۔ لیکن کسی نے وزارت چھڑوانے کی وجہ نہ بتائی۔۔ادویات کی قیمتوں میں گزشتہ ماہ پھر اضافہ ہوا تو وزیراعظم کے معاون ڈاکٹر فیصل نے بتایاکہ قیمتیں اس لئے بڑھائی ہیں کہ یہ ادویات بلیک ہو رہی تھی مارکیٹ میں میسر نہیں تھیں۔
باالفاظ دیگر اعتراف کیاکہ نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ آپ ادویات کو مارکیٹ میں لانے پر مجبور کرنے کی بجائے بلیک میل ہو کر قیمتیں بڑھا دیتے ہیں تاکہ مارکیٹ میں دوائی ملتی رہے۔
وزیراعظم صاحب آپ پاکستان کو ترقی یافتہ نہ بنائیں نہ یہ آپ کرسکتے ہیں۔۔آپ ترقیاتی منصوبوں کا جال نہ بچھائیں ۔ کیونکہ یہ آپ کی ترجیحات میں ہی نہیں ہے۔۔ لیکن جس سسٹم پر آپ خود زور دیتے ہیں وہ سسٹم تو درست کریں۔۔
تاجروں ، دکانداروں پر ٹائنگرفورس چھوڑنے کی بجائے انتظامی مشینری اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں سے کام لیں۔۔ جو دفاتر میں ویلے بیٹھ کر ہم پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور بغیر کہے اپنے کام نہیں کرتے۔۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ایف ٹین یا کسی اور پوش ایریا میں کسی شاپ پر چھاپہ مار کر تصویر ٹوئٹر پر شیئرکرکے سمجھتے ہیں حاضری پڑ گئی ہے۔۔ انھیں بتائیں کہ اسلام آبادروات سے شروع ہو کر ٹیکسلا تک ہے اورہر جگہ قیمتوں کو کنٹرول کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔
جس سیٹیزن پورٹل پر آپ بہت مان کرتے ہیں۔۔اس کا حل بھی افسر شاہی نے نکال لیاہے۔۔کام کرتے نہیں لیکن سٹیٹس میں لکھ دیتے ہیں ، سالوڈ،۔۔ ریکارڈ پر موجود ہے بہت کچھ۔۔ جو شکایات پورٹل پر کی گئیں اوران کا جو حشر ہوا۔
عام آدمی کو گھر بنا کر دیں۔۔ نہ قرضے دیں۔۔نہ ان کے غم میں زبانی کلامی ہلکان ہوں۔۔ بس غریب پر رحم کریں اور مہنگائی کو ریورس گیئر لگائیں۔۔چینی ، آٹا، آئل روزمرہ استعمال کی اشیاء، بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتیں دو سال پہلے کی سطح پر واپس لے جائیں ۔۔یہ آپ کا احسان ہوگا قوم پر۔