اصغرخان کیس کا انجام
شمشاد مانگٹ
اصغر خان کیس بالکل اسی طرح دم توڑتا ہوا نظر آرہا ہے جس طرح ہمارے ہاں اسی‘ نوے سال کے بزرگ اپنے آخری ایام میں بستر مرگ سے لگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اصغر خان کیس بنیادی طور پر عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے خلاف عوام کا کیس تھا اور اس میں ملک کی ٹاپ عسکری اور سول سیاسی لیڈر شپ ملوث تھی۔ اس کیس کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ دو فوجی جرنیل سیاستدانوں کے ساتھ مل کر سیاست کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔
ہمارے ملک کا ہمیشہ سے المیہ ہی یہ رہا ہے کہ طاقتور کے سامنے قانون کے دانت ہمیشہ کھٹے ہوجاتے ہین۔ اس کیس نے ایک طرف قانون کے دانت کھٹے کردیئے اور دوسری طرف ایک بار پھر عوام کے قانون سے متعلق ”دل کھٹے“ کردیئے۔ ہمارے ملک کا طاقتور طبقہ اس اہم ترین کیس میں قانون کے جبڑے کھول کر اپنا ہاتھ نکالتا ہوا صاف دکھائی دے رہا ہے۔
ایف آئی اے نے سپریم کورٹ کے حکم پر جس تفتیش کا آغاز کیا تھا اس پر تقریباً ہتھیار ڈالتے ہوئے سپریم کورٹ میں تحریری رپورٹ جمع کروا دی ہے۔ اس رپورٹ میں ایف آئی اے نے اپنی بے بسی اور کمزوری بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کیس میں زندہ بچ جانے والے کردار یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ انہوں نے مینڈیٹ چوری کرنے کیلئے کسی سے پیسے لئے تھے۔ لہذا اس کیس کو بند کردیا جائے۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے مینڈیٹ چوری کرنے کی یہ واردات 1990 ء میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کے ساتھ مل کر کی تھی۔ 1994 ء میں مرحوم جنرل نصیر اللہ بابر نے پارلیمنٹ کے فلور پر اسد درانی کے حلف نامے کو پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کیلئے آئی ایس آئی نے اسلامی جمہوری اتحاد کے لیڈروں میں 14 کروڑ روپے تقسیم کئے تھے۔
اسی حلف نامے کو لے کر اصغر خان سپریم کورٹ چلے گئے تھے اور پھر سپریم کورٹ میں اس کیس پر گرد پڑتی رہی اور آخری چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس کیس کی سماعت کا آغاز کیا۔ سابق چیف جسٹس نے تمام شہادتیں پوری ہونے کے باوجود اس کیس کو مزید لٹکانے میں ہی عافیت سمجھی اور عدالت کے ذریعے حکم صادر کردیا کہ اس کیس کی ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات کروائی جائیں۔ مزید یہ کہ حکومت اس کے تمام کردار بے نقاب کرنے کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے۔
حالانکہ اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی لیکن پیپلزپارٹی نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں اس لئے زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی کیونکہ وہ اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنے کی خواہشمند تھی اور دوم یہ کہ مینڈیٹ چوری کے اصل سرغنہ میاں نواز شریف کے ساتھ میثاقِ جمہوریت طرز کا نکاح بھی کر چکی تھی اس لئے پیپلزپارٹی نے اس کیس کی مزید تفتیش میں دلچسپی ظاہر نہیں کی اور پھر ایف آئی اے اس وقت بے بس ہوگئی جب میاں نواز شریف ملزم سے وزیراعظم بن گئے۔ اس سے پہلے جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے بھی اس کیس کو التواء میں ڈالے رکھا کیونکہ تفتیش آگے بڑھانے سے جنرل پرویز کے ساتھ کام کرنے والی ”خلائی مخلوق“ کے بے نقاب ہونے کے خدشات تھے۔
اب ایف آئی اے نے سپریم کورٹ کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ گڑھے مردے اکھاڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ کوئی ملزم جرم تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ ایف آئی اے کے اس مؤقف کو اگر سامنے رکھا جائے تو پھر میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف تمام مقدمات فوری طور پر ختم کردیئے جائیں کیونکہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد احتساب عدالتوں کے فیصلے بھی آگئے مگرمیاں نواز شریف پورے خاندان کا مؤقف ایک ہی ہے کہ کرپشن ان کو چھو کر نہیں گزری ۔ ایف آئی اے کی رپورٹ کو نظیر بنا کر میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے تمام کیس ختم کیئے جاسکتے ہیں۔
ایف آئی اے کے اس اعترافِ بے بسی کا فائدہ پیپلزپارٹی کو بھی ملنا چاہیئے کوینکہ منی لانڈرنگ کی تمام کڑیاں اور ”کُڑیاں“ ملنے کے باوجود پیپلزپارٹی کا سرکاری مؤقف تاحال یہی ہے کہ انہوں نے کوئی بھی کام خلاف قانون نہیں کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے خلاف تمام شہادتیں ایف آئی اے نے اکٹھی کی ہیں اس لئے قوم امید رکھے یہی ایف آئی اے کہہ سکتی ہے کہ تمام شہادتیں درست ہونے کے باوجود کیس اس لئے ختم کردیا جائے کیونکہ منی لانڈرنگ میں ملوث کوئی بھی شخص جرم تسلیم نہیں کررہا۔
خلائی مخلوق کے ذریعے عوامی مینڈیٹ چوری کرنے والے کئی کردار اب اس دنیا میں نہیں رہے اور جو زندہ ہیں وہ اپنی عمر کا زیادہ حصہ بسر کر چکے ہیں اور اب ان کے پاس گنے چنے دن مہینے یا سال باقی ہیں اس کے بعد وہ بھی اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گے۔ اس کیس کے مدعی اصغر خان پہلے ہی خالق حقیقی سے رجوع کر چکے ہیں اور اب اللہ کے ہاں یقیناً اس ظلم اور نا انصافی کے خلاف ایک بار پھر مدعی بن کر ضرور پیش ہوں گے۔ مینڈیٹ پیپلزپارٹی کا چوری ہوا تھا لیکن پیپلزپارٹی نے چوروں کا تعاقب اس طرح نہیں کیا جس طرح مرحوم اصغر خان نے کیا لہذا اللہ تعالیٰ کی عدالت میں اصغر خان پیپلزپارٹی کی مجرمانہ خاموشی پر اللہ سے ضرور استدعا کریں گے۔
اصغر خان کیس کئی کیسوں کی طرح اس لئے بھی اہم ہے کہ اس کیس نے ایک بار پھر معاشرتی تفریق کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ ایف آئی اے اور پولیس عام آدمی کو تھرڈ ڈگری لگا کر سب کچھ منا لیتی ہے لیکن وی آئی پی ملزمان سے تفتیش کیلئے ان کے گھر بھی نہیں جاسکی۔ حکومت کو چاہیئے کہ اصغر خان کیس کی فوٹو کاپیاں کروا کر تمام غریبوں کے گھروں میں لگوا دے تاکہ سب کو یہ احساس صبح ‘ دوپہر اور شام ہوتا رہے کہ پاکستان کا قانون صرف کیڑے مکوڑے غریب پاکستانیوں کیلئے ہے جبکہ طاقتور لوگوں کا کیس صرف اس لئے ختم کردیا جاتا ہیکہ انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا اور دوسری طرف عوام ہیں ان کے کھاتے میں ہر جرم ڈال دیا جاتا ہے جس سے ان کی صحت ہی خراب ہوجاتی ہے ۔ اصغر خان کیس کا انجام ہمارا معاشرتی المیہ ہے۔