آخر قصور کس کا؟؟
غوثیہ پرویز خان
آج کل ہمارے ملک میں جنسی زیادتی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا شکار تو کبھی بالغ افراد، کبھی عورتیں تو کبھی خواجہ سرا یا پھر معصوم بچے بچیاں ہورہی ہیں ۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر قصور کس کا ہے؟؟
آج بھی جنسی زیادتی کے مرتکب مجرموں کی سرزش کے بجائے لوگ اس بات کا اصرار کرتے ہیں کہ خواتین کو گھروں میں رہنا چاہیے اور لباس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو آج بھی لگتا ہے کہ خواتین کے لباس اور گھر سے باہر نکلنے کی وجہ سے ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے۔
اب بات یہ سمجھ نہیں آتی کہ جن چھوٹے بے شمار معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ہا ہوتی ہے ایسا کیا تھا ان کے لباس میں جس نے ایک آدمی میں جذباتی ہیجان پیدا کیا ۔ جس نے ان معصوم کلیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور بعد میں بےدردی سے قتل کرنے کا جواز بھی دیا۔
جنسی زیادتی کے بہت سے واقعات روزمرہ کی زندگی میں ہوتے ہیں لیکن لوگ اپنی عزت و آبرو بچانے کی وجہ سے چپ کر جاتے ہیں۔اور سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا۔۔ آج کل تو سوشل میڈیا کی وجہ سے حد ہی تمام ہو گئی ہے۔ بلا اجازت اور بلا تردد لوگ جنسی زیادتی کے متاثرین کی تصاویر اس سے اور اس کے خاندان سے متعلق حتی کہ اس کی زندگی کے ہر پہلو کو سوشل میڈیا کی زینت بنا دیتے ہیں۔
لیکن جو درندہ اس جرم کا ذمہ دار ہوتا ہے اس کے بارے میں سرے سے بات ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کو تھانے اور عدالت لاتے اور لے جاتے ہوئے اس کا چہرہ کپڑے سے ڈھک دیا جاتا ہے۔ کیا یہ سراسر زیادتی نہیں ہے؟؟ اس خوف اور ڈر کی وجہ سے لوگ اپنا منہ بند کر لیتے ہیں اور کھل کر بات نہیں کرتے کہ معاشرہ حمایت کے بجائے الٹا تماشا بنائے گا۔۔ جس کی وجہ سے ان درندوں کا کو اور شہ ملتی ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ہم اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنسی زیادتی کرنے والا جاہل، گمراہ اور ان پڑھ ہوتا ہے لیکن یہ بات درست نہیں اگر ہم ایسے واقعات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں ملوث اکثر لوگ پڑھے لکھے اور مذہبی رجحان رکھنے والے ہوتے ہیں۔
آخر اس سب کی وجہ کیا ہے ؟؟
اس مسئلے کا حل صرف یہ نہیں کہ جنسی زیادتی کے مرتکب ہونے والوں سے نفرت یا کنارہ کشی کی جائے یا صرف سزا دلوائی جائے بلکہ جنسی زیادتی کے محرکات اور وجوہات کو اس کی گہرائیوں سے سمجھنے کی ضرورت ہے تب ہی اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کر سکیں گے۔ جنسی زیادتی کو سمجھنے سے ہی اس سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔یہ مسئلہ صرف ہمارے سوچنے سے نہیں ٹل سکتا بلکہ ہمیں عملی طور پر سرگرم ہونا پڑے گا۔اس کے حل کے لیے اپنا کردار نبھانا ہوگا۔۔