اسمبلی خطرے میں
شمشاد مانگٹ
پاکستان ریکارڈ کی زد میں ہے اور کھیل کی دنیا سے لے کر سیاسی بساط پر نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔ ایک وہ وقت تھا جب میاں نواز شریف عدالتوں میں پیش ہوتے ہوئے گھبرایا کرتے تھے لیکن اب ان کا ”جھاکا “ ایسا اترا ہے کہ وہ عدالتوں کے معمولی بلاوے پر بھی حاضر ہو جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی عدالتوں میں پیشیوں کا عالم یہ ہے کہ عدالتی ہر کارے کی آواز پڑنے سے پہلے ہی میں میاں نواز شریف ساتھیوں سمیت کمرہ عدالت میں موجود پائے جاتے ہیں ۔
میاں نواز شریف نے احتساب عدالت میں تیز ترین پیشیوں کا بھی قومی ریکارڈ قائم کر دیا ہے ۔ میاں نواز شریف اس وقت سب سے زیادہ عدالتوں میں اصالتاً پیش ہونے والے سیاستدان بن چکے ہیں۔ عدالتی ماہرین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ میاں نواز شریف عدالتوں میں اصالتاً اور وکالتاً حاضری کے دونوں ریکارڈ اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں اور مستقبل قریب میں یہ ریکارڈ ٹوٹتا ہوا بھی نظر نہیں آتا چونکہ یہ پاکستان ہے لہٰذا یہاں ریکارڈ بنتے بھی دیر نہیں لگتی اور ٹوٹتے ہوئے تو بالکل دیر نہیں لگتی۔
میاں نواز شریف کی عدالتوں میں پیشیوں کا یہ ریکارڈ ان کے ہمدردوں اور ووٹروں کے لئے بہت ہی قابل قدر ہے کیونکہ وہ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف نہ صرف اصالتاً ”شریف “ ہیں بلکہ ”حقیقتاً“معصوم بھی ہیں اور یہ کہ میاں نواز شریف کے حامی اپنی قیادت کی کرپشن کو ”جائز“ سمجھتے ہیں کیونکہ اکثر یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ شریف خاندان اگر ”کھاتا “ ہے تو ”لگاتا“ بھی ہے ۔ لہٰذا مسلم لیگ(ن) کے ورکروں کے لئے میاں نواز شریف کی عدالتی حاضریاں ایک دلیرانہ اقدام ہے جبکہ ان کے مخالفین عدالتی پیشیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کو توبہ کرنی چاہئے ایسی دولت کا کیا فائدہ جو ہر چھوٹی بڑی عدالت حتٰی کہ عوام کی عدالت میں بھی رسوا کر کے رکھ دے ۔
بہرحال سیاسی لوگ اگر قتل بھی کر دیں تو ان کے خلاف 302 کا مقدمہ بھی سیاسی ہی کہلاتا ہے اور سیاستدانوں کو سب سے بڑی سہولت یہ میسر ہوتی ہے کہ ہر قسم کا مقدمہ ان کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بنتا ہے ۔ لہذا پاکستان میں گائے چوری ، بھینس چوری اور بکری چوری سے لے کر قومی خزانے کی چوری تک مقدمات بنائے گئے اور ان مقدمات کے باعث ہمارے سیاستدانوں کے ووٹ بنک میں حیرت انگیز طور پر تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھا گیا ۔ جس سیاستدان کے خلاف بھی مقدمہ درج ہو جائے اس کے ووٹ بنک میں اضافہ پاکستان کی آبادی میں اضافے سے بھی زیادہ تیزی سے ریکارڈ کیا جاتا ہے ۔
میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری آج کل ”کثیر المقدمات“ کا شکار ہیں اور دونوں کوشش کر رہے ہیں کہ یہ مقدمات ان کے ووٹ بنک میں اضافہ کر دیں کیونکہ ” بنک “ تو ان کے پہلے ہی کافی ہیں ۔ دونوں قومی سیاستدانوں میں ایک اور مشترکہ خوبی یہ بھی ہے کہ دونوں ”رنڈوے “ ہیں البتہ دونوں کی پیشیاں الگ الگ صوبوں میں ہو رہی ہیں ۔ آصف علی زرداری کی اگر سابقہ پیشیاں بھی شامل کر لی جائیں تو پھر بھی میاں نواز شریف کی موجودہ پیشیوں سے زیادہ نہیں ہیں ۔
میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے تو ان کی ملاقاتوں کی لسٹ تیار ہوتی تھی لیکن اب سرشام انہیں اگلے دن کی پیشیوں بارے آگاہ کیا جاتا ہے اور میاں نواز شریف جس ”عقیدت“ اور خشوع خضوع سے عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں ، اس سے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے کبھی عدالتوں پر حملے بارے سوچا بھی نہیں ہو گا اور مخالفین محض الزام لگاتے ہیں مگر میاں نواز شریف خود کہہ چکے ہیں کہ وہ حالات و واقعات کا دھارا دیکھ کر پالیسی بناتے ہیں حالانکہ اقتدار میں ہوتے ہوئے وہ آج تک حالات و واقعات کا درست اندازہ نہیں کر پائے ۔
میاں نواز شریف کی پیشیوں کی طرح وزیر اعظم عمران خان نے بھی انٹرویو دینے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز بیک وقت آدھ درجن اینکرز کے سوالوں کا دست بدست مقابلہ کیا ۔ سابق وزراءاعظم ون آن ون انٹرویو پر ہی ا کتفا کرتے چلے آئے تھے لیکن وزیر اعظم عمران خان نے ایک دم کئی اینکرز کو ہوش ربا سوالوں کے ساتھ حملہ آور ہونے دعوت دے کر بڑی جراتمندی کا مظاہرہ کیا ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان روزانہ کی بنیاد پر بے شمار بولتے ہیں اور مخالفین کا خیال ہے کہ زیادہ بولنے والا لیڈر زیادہ غلطیاں کرتا ہے لیکن عمران خان نے زیادہ بولنے کا کام شروع کرنے سے پہلے اپنے لئے ” یوٹرنی سہولت “ ایجاد کر کے اپنے لئے کام آسان کر لیا ہے ۔ لہٰذا وہ جب زیادہ بولتے بولتے غلط بول جاتے ہیں تو یوٹرن لے کر اپنے بڑا لیڈر ہونے کا ثبوت بھی دیتے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان کا طرز سیاست اور اسلام آباد ٹریفک پولیس کی پالیسی تقریباً ایک جیسی ہے ۔ عمران خان کی طرح اسلام آباد ٹریفک پولیس بھی یوٹرن پر پورا یقین رکھتی ہے ۔ اسلام آباد کے شہریوں کو ٹریفک سگنل سے بچانے کے لئے سڑکوں پر بے شمار یوٹرن اس کا ثبوت ہیں
۔ وزیر اعظم عمران خان کے گزشتہ روز دیئے گئے ”اجتماعی انٹرویو“ سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا ہے کہ اسمبلی خطرے میں ہے ۔ ماضی میں اسمبلی کو ایوان صدر سے خطرہ ہوا کرتا تھا لیکن پہلی بار سیاسی جماعتوں کے اندر یہ سوچ بیدار ہو رہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کسی بھی وقت قومی اسمبلی کو ہوا میں تحلیل کر سکتے ہیں ۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان یہ سوچ رہے ہیں کہ ایک سال کے اندر اندر چند بڑے کام کر کے اور بڑے بڑے قومی چوروں کو جیلوں میں ڈال کر عام انتخابات کروا کر دو تہائی مینڈیٹ کی راہ ہموار کی جائے ۔
عمران خان کی اس سوچ سے اسمبلی یقیناً خطرے میں ہے اور بڑے بڑے سیاستدان تو پہلے ہی اپنی سیاست کے لئے خطرہ محسوس کر رہے ہیں ۔ قبل از وقت الیکشن عمران خان کے لئے سیاسی جوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں اور دوتہائی مینڈیٹ لیتے لیتے لینے کے دینے بھی پڑھ سکتے ہیں ۔