صحافت میں بھونچال

0

محبوب الر حمان تنولی

لوگوں تک خبریں پہنچانے والا میڈیا ان دنوں خود خبر بنا ہوا ہے۔۔۔ کچھ دن ہوئے میڈیا اداروں سے صحافیوں اور کارکنوں کی چھانٹیوں کا سلسلہ جاری ہے۔۔ کبھی خبر آتی ہے فلاں بڑے ادارے سے اتنے لوگ فارغ ہو گئے ہیں۔۔ کبھی پتہ چلتاہے فلاں معروف اینکر نکال دیاگیاہے۔۔۔ کہیں تنخواہوں اور مراعات پر کٹ لگ رہاہے۔۔۔صورتحال تشویشناک ہے۔۔ اس کی ذمہ دار صرف حکومت نہیں ہے۔۔ خود صحافی تنظیموں کی غفلت اور لاپروائی بھی سبب بنی ہے۔

میڈیا مالکان نے صحافیوں سے پوچھ کر ادارے نہیں بنائے تھے۔۔ یقینا ان کا ہدف کارو بار تھا۔۔ خاص کر جب کمزور حکمران مسلط ہوں۔ ۔ کرپشن چھپانا ۔۔ کمزوریوں پر پردہ ڈالنا مقصود تھا تو یہ ادارے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے رہے ۔۔ ان کا کاروبار بھی خوب چمکا ۔۔ گلی گلی محلے محلے ڈی ایس این جیز گومتی نظر آئیں۔۔۔ کیمرہ مین جب قطار میں کیمرے لگاتے ہیں۔۔ رپورٹرز بیپرز دیتے ہیں تو یہ عمل خود میڈیا کی تشہیر کا زریعہ بھی بنتا رہاہے۔

سیاستدان ، حکومتیں، بڑی سیاسی جماعتیں ، کارو باری ادار ے، نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیاں میڈ یا کاسہار ا لے کرخود کو متعارف کراتے ہیں اور مارکیٹ بڑھاتے ہیں۔۔۔ لیکن اب جب متذکرہ بالا فہرست میں سے صرف ایک شراکت دار حکومت نے ہاتھ ہولہ کیا۔۔ اشتہار نہیں روکے بلکہ اوپر کی کمائی روکی ہے تو سب کی چیخیں نکل رہی ہیں۔حالانکہ ان کے بزنس کو سہارا دینے والے باقی نجی کمپنیاں، ادارے اور بڑی اوپن مارکیٹ اسی طرح موجود ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیاوزیراطلاعات فواد چوہدری یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہم عوام سے ٹیکس کے پیسے لے کر ان کے میڈیا ہاوسز اوربزنس نہیں چلا سکتے۔۔۔ اشتہار تو اسی طرح مل رہے ہیں۔۔ ہو سکتاہے کم ہوں لیکن یہ جو تاثر دیا جارہاہے کہ مل ہی نہیں رہے یہ غلط ہے۔۔ کیا بے روز گار ہونے والے صحافی دوست پی آئی ڈی سے سب کو ملنے والے اشتہارات کی تازہ ترین رپورٹ نہیں نکلوا سکتے ؟ پتہ تو چلے زمینی حقیقت کیاہے؟ شور اصلی ہے یا نقلی۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ہم نے ایک بڑے اخبار کو سکڑ کر چار صفحات تک محدود ہوتے دیکھاہے لیکن تب بھی ملازمین پر شاید ایسا وقت نہیں آیاتھا۔۔مالکان نے ان برے دنوں میں کارکنوں کو ادارے کیلئے سڑکوں پر بیٹھتے اور احتجاج کرتے دیکھ کر اپنے ماضی سے تائب ہونے اور مستقبل میں سچ لکھنے کے عہد و پیماں کئے تھے۔۔ ۔ وہ اس وعدے پرقائم رہے یا نہیں قارئین ہی اصل منصب ہوتے ہیں۔

اب کی بار صورتحال بہت مختلف ہے۔ اتنا درد نہیں ہے جتنی چیخ و پکارہے۔ ۔ جب مالی فوائد سمیٹنے کا وقت تھا تب پرنٹ میڈیا سے لوگوں کو خریدتے اور الیکٹرانک میڈیا میں ڈالتے رہے۔ ۔۔خام مال کی بڑی کھیپ بھی بغیر تربیت کے ٹیم کا حصہ بنی اور تجربات سے تجربہ کار بن
گئے۔۔ ۔ لیکن مجال ہے کسی ادارے نے صحافیوں یا دیگر غیر صحافی ملازمین کی تربیت کااہتمام کیاہو۔۔۔ یہ مشق الیکٹرانک میڈیا کی شروعات میں ایک دو اداروں نے شروع کی تھی۔۔ صحافی یو اے ای جا کر تربیتی نشستوں میں شامل بھی ہوئے۔۔ لیکن پھر اس کام کو بوجھ سمجھ کر چھوڑ دیاگیا۔

چھوڑ اس لئے دیا گیاکہ ہم لوگ خود ہر خدمت کیلئے خود کو پیش جو کردیتے ہیں۔۔ اس کی نئی مثال رپورٹرز کی ہے جو کہ نمبر بنانے کے چکر میں موبائل فوٹیج بناتے تھے۔۔۔ اب یہ کیمرہ ورک بھی ان کی ڈیوٹی کاحصہ بن چکاہے۔۔۔ اسی طرح اسائمنٹ ایڈیٹرز کی ہے بڑی تعداد اپنے رپورٹرز کی خبر ملنے یا اس سے مانگنے کی بجائے۔۔اپنی ہم منصب ٹیم سے خبریں لے کر کام چلاتی ہے۔۔ فوٹیج بھی ایسے ہی ادھار میں مانگ کر آن ایئر کردی جاتی ہے۔

ذرا سوچیئے ! جب آپ نے اور وں کے کام بھی سنبھال لئے ۔۔ آپ ٹوان ون ۔ یا تھری ان ون بن گئے ۔۔تو پھر آپ نے رپورٹرز کو بے وقعت کردیا۔۔ رپورٹر ز نے کیمرہ مین کے بغیر کام چلا کر اسے بوجھ ثابت کردیا۔۔اب ایسے میں اگر صحافت میں بھونچال آنے لگا ہے تو اس کے کچھ کچھ زمہ دار ہم خود بھی ہیں۔۔اداروں میں خوشامدی کلچر نے پسند نا پسند کی بنیاد پر میرٹ کا ستیاناس کردیا ہے۔۔ آپ جتنے بھی با صلاحیت ہیں اگر اس ہنر سے ناواقف ہیں تو پھر یہ طے ہے کہ آپ ہی نکمے ہیں۔ آپ ہی کام نہیں کرتے۔

میڈیا تنظیموں کے کردار پر میں بعد میں آتاہوں پہلے مجھے وہ خوفناک منظر کشی کرنے دیں جو مستقبل میں حقیقت کاروپ دھارنے جارہی ہے۔۔ میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کی چکا چوند اور دل موہ لینے والی تشہیر نے نئی نسل کو اپنے طرف راغب کیا۔۔ یونیورسٹیز میں طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد ماس کمیونیکیشن اور سپیشلائزیشن کرکے میڈیا کا حصہ بننے کیلئے مستقبل کے سہانے سپنے سجائے بیٹھی ہے۔۔ جب کہ بزنس ماہنڈ میڈیا انحطاط کا شکار ہے۔۔بہت کم بازی گر ، شاطر یا سچ مچ باصلاحیت ناگزیر لوگ ہیں جن کی سیٹیں پکی ہیں ۔

میڈیا میں جس کو زبانی مالکان اور ارباب اختیار کو پورا کرنے کا ہنر نہیں آتا ان پر تلوار لٹک رہی ہے۔۔ ماضی قریب میں۔ میں نے خود کئی حامل صحافیوں کو مایوس ہو کر شعبہ بدلتے دیکھاہے۔۔ ۔اگر میڈیا حکومتی اشتہاروں کا ہی محتاج ہے تو پھر سمجھ لیں کہ اب برا وقت شروع ہو چکاہے۔۔ موجودہ حکومت تو کنٹینٹ نہیں بیچ رہی۔۔ وہ اور تھے جو فرمائشی لیڈ لگواتے ۔۔ ہیڈ لائنز کاحصہ بنتے اور براہ راست دکھانے کے پیسے دیتے تھے۔۔ اسی لت نے بزنس ماہنڈ مالکان کو گمراہ کیا۔۔ اب اگر کوئی پیسے دے کر لیڈ نہیں بننا چاہتا۔۔ فرمائش کرکے ہیڈلائن میں یا براہ راست کوریج نہیں چاہتا تو زبردستی کیسی؟
اب احاطہ کرتے ہیں صحافتی تنظیموں میں احساس زمہ داری کے فقدان کا۔۔میں 1992میں جب صحافتی بیڑے کاحصہ بنا تب سنتے تھے ویج ایوارڈ کا نفاذ ہونے والا ہے۔۔ اور آج آٹھویں ویج ایوارڈ کی گونج ہے لیکن سوائے چند گنے چنے اداروں کے یہ کہیں نافذ نہیں ہو سکا۔۔۔ ہاں البتہ یہ فائدہ ضرور ہے قوائد و ضوابط کے باعث برطرف کارکن عدالت جاسکتے ہیں۔۔ اس کے برعکس الیکٹرانک میں میڈیاکیلئے سرے سے کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے۔

سابق دور حکومت میں وزرائے اطلاعات پرویز رشید اور مریم اورنگزیب نے نیشنل پریس کلب کے قائدین کو مشورہ دیا تھا کہ آپ الیکٹرانک میڈیا کے سروس سٹرکچر، رول ریگولیشنز پر مبنی ڈرافٹ بنائیں تاکہ حکومت اس میں کمی بیشی کرکے الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں اور ملازمین کیلئے قانون ساز ی کرلے۔۔ لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔۔ کہنے کو تو پی ایف یو جیز کی بھرمار ہے۔۔ پانچ دھڑوں کے پانچ صدور ہیں۔۔ نیشنل پریس کلب کی ایک باڈی آفس کے اندر باضابطہ کام کررہی ہے۔۔ آر آئی یو جیز بھی آپریشنل ہیں۔۔ لیکن سب کا وژن کہیں نظر نہیں آتا ۔۔

آج میڈیا کو جن برے حالات کا سامناہے اس میں اگر میڈیا مالکان کے زیادہ منافع کی سوچ کار فرماہے تو صحافتی تنظیمیں بھی اس لیئے بری الزمہ نہیں ہیں کہ اس کیلئے کوئی پیش بندی سرے سے نظر نہیں آتی ۔۔ کھانے کی دعوتیں،مینگو پارٹیاں ، کھیلنے بیٹھنے کی سہولیات کی حد تک تو سب اچھاہے لیکن جہاں کام صحافی کی جاب سکیورٹی کاہے اس کا کہیں وژن نہیں ہے کہیں اداروں میں موجود بااثر لوگوں کی وجہ سے صحافتی تنظیمیں بلا تفریق احتجاج کا عمل بھی مکمل نہیں کر پا رہیں۔کوہی این پی سی کے اندر مصلحتوں کے پابند ہیں کوہی باہر بیٹھ کر آزاد ہیں، بعض جاگو نام رکھ کر سو ہے ہو ہے ہیں تو کچھ صرف نام کے دستور ہیں، الغرض سب تقسیم ہیں۔

کاش اختلافات کے باوجود صحافیوں کے وسیع تر مفاد کیلئے ایک لائحہ عمل ہو تا۔۔ ایک احتجاج ہوتا۔۔ ایک آواز ہوتی ۔۔ بے شک نیشنل پریس کلب یا آر آئی یو جیز میں سیاست کرتے رہتے ۔۔ لیکن یہاں تقسیم اس حد تک ہے کہ دوسرے گروپ کے لوگوں کو ڈنڈے پڑیں تو اس پر آواز بلند کرنے کی بجائے اطمینان کااظہار ۔ جگتیں ، گپ شپ چلتی ہے۔۔ سی آر شمسی ہوں ، شہر یارخان، طارق عثمانی اتحاد کی تمام آوازیں بے اثر ثابت ہوئیں۔۔ اور آج اس لڑائی نے صحافیوں کے مستقبل کو داو پر لگا رکھاہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.