خانِ اعظم
شمشاد مانگٹ
وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کی گئی حالیہ تبدیلیوں سے سیاسی شطرنج پر پڑے ہوئے مہرے اب تمام راز اگل رہے ہیں کہ کون کس کے لئے کام کررہا ہے اور کون اہم اور غیر اہم ہوتے جارہے ہیں۔بظاہر چیف ایگزیکٹو وزیراعظم کی ذات ہے لیکن درحقیقت اب اختیارات کا ارتکاز وزیراعظم کے کمرے کے بالکل ساتھ والے کمرے میں منتقل ہو چکا ہے۔
چونکہ ریکارڈ بنتے ہی ٹوٹنے کے لئے ہیں، اس لئے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے اختیارات کے استعمال میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔فواد حسن فواد کے اختیارات تقرریوں اور تبادلوں کے بعد فیض آباد چوک میں آکر ختم ہوجاتے تھے.
وہ اس لیے کہ فیض آباد سے پنجاب شروع ہوجاتا ہے اور پنجاب میں میاں شہبازشریف کے سامنے دال نہیں گلتی تھی ۔اسی طرح کے پی کے میں مسلم لیگ(ن)مخالف حکومت تھی لہذا وہ اس طرف ڈکٹیشن دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے جبکہ بلوچستان ان سے دور تھا اور سندھ بہت ہی دور تھا ،اس لئے وہ وفاق میں ہی معتبرتھے۔
اب اعظم خان کو دیکھیں تو وہ اسلام آباد میں بھی بہت اہم ہیں اور اسی تناسب سے وہ پنجاب ، کے پی کے اور بلوچستان کی حکومت کی ڈور بھی ہلانے کی جرات اور مہارت رکھتے ہیں ۔اسلام آباد کی پولیس اور ضلعی انتظامیہ پر اعظم خان کا مکمل کنٹرول ہے ۔
ڈی آئی جی آپریشن وقار الدین سید کے ہوتے ہوئے ایس ایس پی آپریشنز کی تعیناتی اب خواب ہی معلوم ہوتی ہے چونکہ پرنسپل سیکرٹری اوروقارالدین سیدکے درمیان گہری دوستی ہے اس لئے آئی جی اسلام آباد بھی ڈی آئی جی کے سامنے کھڑے ہونے سے گریز کرتے ہیں۔
اسلام آباد کے ایس ایچ اوز اور اہم تفتیشی افسران کے تبادلوں میںمقامی نمائندوں سے زیادہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی بات مانی جاتی ہے ےہی حال ضلعی انتظامےہ کا بھی ہے اور پورا ڈھانچہ وزیراعظم کے پرنسل سیکرٹری کے اشارہ ابرو کا محتاج ہے۔
اسی طرح پنجاب میں چونکہ ایک انتہائی کمزور وزیراعلیٰ اور کابینہ کام کر رہی ہے اور وزیراعظم کا خیال تھا کہ اس کمزور صوبائی حکومت کو وہ اپنی مرضی سے چلائیں گے لیکن درحقیقت وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری پنجاب کے انتظامی امور کو اپنی مرضی اور منشاءکے مطابق چلا رہے ہیں۔
چند روز پہلے جب چیف سیکرٹری پنجاب اعظم سلیمان کو ہٹایا گیا تو انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا تھا لیکن وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے انہیں سیکرٹری داخلہ کے عہدے پر بٹھا کر راضی کر لیا۔جبکہ چیف سیکرٹری پنجاب کے عہدے پرا نہوں نے جواد رفیق کو بٹھا کر پنجاب حکومت کو مزید زیر اثر کر لیاہے۔
وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو ہٹانے کے لئے رمضان المبارک سے پہلے ایک کوشش ہوئی تھی لیکن اسٹبلیشمنٹ میں بیٹھے ہوئے ان کے دوستوں نے تین نام ایسے بھیجے جن میں ایک ریٹائر ہو چکا ہے اور دوسرا ریٹائر ہونے والا ہے اور تیسرے نے عہدہ لینے سے ہی معذرت کر لی۔
اس طرح اقتدار کی غلام گردشوں میں اعظم خان نے اےک بار پھر بازی جیت لی اور انہیں ہٹانے کی خواہش رکھنے والوں کو اس واردات کا علم بھی نہ ہوسکا۔چینی سکینڈل کی انکوائری رپورٹ لیک کرنے میں بھی انہی کا کلیدی کردار تھا کیونکہ جہانگیر ترین اور انکے حمایتی جانتے ہیں کہ اس رپورٹ کو لیک کرکے کیا مقاصد حاصل کیے گئے؟ اور اس میں اہم کردار کس کا رہا ہے؟
حد تو یہ ہے کہ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی بے جا مداخلت نے وزارت اطلاعات و نشریات کو بھی اپنی لپیٹ میں لئے رکھا۔محترمہ فردوس عاشق اعوان جب اپوزیشن جماعتوں کے تابڑ توڑ حملوں کا جواب دے رہی تھیں عین اس وقت پی آئی ڈی کے میر جعفر انکے خلاف بے بنیاد رپورٹس بنا کر اعظم خان کو بھیج رہے تھے۔
اشتہارات کی تقسیم آٹھ بڑے اخبارات تک محدود تھی اور ایسے اخبارات جن سے محترمہ فردوس عاشق اعوان کمشن لینے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں ایک کمرہ ہے جس میں وزیراعظم بیٹھتا ہے اور اس کمرے میں کرپشن اور اختیارات سے تجاوز بارے کوئی بات نہیں کرسکتا.
اس کمرے کے باہر سب کچھ وہی ہوتا ہے جو پرانے پاکستان میں ہوا کرتا تھا۔وزیراعظم کے کمرے میں بیٹھا ہوا عمران خان ایک طرف اپنے امیر ترین سیاستدانوں کے ہاتھ مجبور اور لاچار ہے اور دوسری طرف انکے ساتھ والے کمرے میں بیٹھے ہوئے اعظم خان وہ اختیارات بھی استعمال کر رہے ہیں جو ان کے نہیں۔ وزیراعظم آفس میں اصل وزیراعظم عمران خان نہیں بلکہ اعظم خان ہے اور اعظم خان ہی خان ِاعظم ہے۔
– – – – – – – – – – –
ادارے کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں.