یہ کوئی نیامسئلہ نہیں!
شمشاد مانگٹ
سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے بروقت پریس کانفرنس کے ذریعے نوزائیدہ سیاسی سکینڈل کا گلاگھونٹ دیا ہے۔گزشتہ روز جب جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے درمیان ہونیوالی خفیہ گفتگو کی ریکارڈنگ عام ہوئی تھی تو خیال کیا جارہا تھا کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ق) کے درمیان فاصلے تیزی سے بڑھ رہے ہیں،لیکن سورج ڈھلتے ہی چوہدری پرویزالٰہی کی مٹھاس بھری پریس کانفرنس نے مسلم لیگ(ن) اور اسکے ہمنواؤں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ مسلم لیگ(ق) کی بھرپور آواز بن کر ابھرے ہیں اور پارلیمنٹ میں موجود مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں کو تحریک انصاف پر سیاسی حملے اور ”جملے بازی“ کرتے وقت یہ خوف رہتا ہے کہ حکومتی بنچوں پر طارق بشیر چیمہ جیسا مسلم لیگی بھی موجود ہے جو مسلم لیگ(ن) کے بارے میں بھی اتنی ہی معلومات رکھتا ہے جتنی وہ مسلم لیگ(ق) کے بارے میں رکھتا ہے۔
گزشتہ روز ”لیک“ہونیوالی ویڈیو سے یہ تاثر مضبوط ہو چلا تھا کہ مسلم لیگ(ق) اور تحریک انصاف میں ”علیحدگی“ کی تحریک زور پکڑ رہی ہے اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی خفیہ گفتگو کو چوہدری پرویز الٰہی کے دل کی آواز قرار دیا جارہا تھا لیکن شام کو چوہدری پرویز الٰہی نے پریس کانفرنس کے دوران یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اگر چہ سپیکر پنجاب اسمبلی ہیں لیکن درحقیقت وہ مسلم لیگ(ق) اور تحریک انصاف کے درمیان ایک مضبوط جوڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران چوہدری پرویز الٰہی نے طارق بشیر چیمہ کی طرفداری کی بجائے متوازن گفتگو کی اور یہ بھی کہا کہ میرے گورنر پنجاب چوہدری سرور سے بہترین تعلقات ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ چوہدری سرور کے ساتھ تعلقات اس وقت مضبوط ہوئے تھے جب انکے حلقہ میں ہسپتال کے قیام پر کام ہورہا تھا۔چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ طارق بشیر چیمہ نے جو گلے اور شکوے کئے ہیں وہ انکا حق ہے اور وہ بند کمرے میں بیٹھ کر کئے گئے۔لہٰذا ایک سیاسی کارکن اور رہنما کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی بات کرے اور ہم تحریک انصاف سے ملکر اس مسئلے کا حل نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس موقع پر انہوں نے باور کرایا کہ اگر ایسا مسئلہ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ ہو جاتا تو میاں شہبازشریف اب تک پولیس بھی بھیج چکے ہوتے لیکن ہم اور ہمارے اتحادی بات کرنے اور بات سے مسئلہ حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
دوسری طرف تحریک انصاف کی طرف سے بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا گیا ہے اور وزیراعظم عمران خان جنہیں کل لاہور سے واپس اسلام آباد آجانا تھا وہ لاہور میں رک گئے تاکہ طارق بشیر چیمہ کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جاسکے۔طارق بشیر چیمہ کو یہ دکھ ہے کہ گورنر پنجاب چوہدری سرور انکے حلقے میں مداخلت کرتے ہیں۔یہ گلا بھی اتنا بڑا نہیں ہے اور اس کا حل بھی زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ لہٰذا طویل عرصہ تک اقتدار کی کشمکش سے واقفیت رکھنے والے چوہدری براردران وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملکر اسکا کوئی نہ کوئی حل نکال لیں گے۔چوہدری پرویز الٰہی کی پریس کانفرنس بتا رہی تھی کہ وہ تحریک انصاف کی قیادت سے بغاوت کی بجائے اسکے مسائل کے حل میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔اسی لئے انہوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ مسلم لیگ(ق) پوری نیک نیتی سے تحریک انصاف کو کامیاب کرنے اور اسکے منشور پر عملدرآمد کیلئے سہولت مہیا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
چوہدری پرویزالٰہی نے یہ بھی باور کرایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی نامزدگی وزیراعظم عمران خان نے کی تھی اور ہم ان سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔اس اہم ایشو کے حوالے سے صوبائی وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان نے بھی نقشِ پرویز الٰہی پر چلتے ہوئے معاملے کو ٹھنڈا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
پنجاب کی سیاسی صورتحال کو دیکھا جائے تو مسلم لیگ(ق) اگر چہ بہت تھوڑی تعداد میں ہے لیکن مسلم لیگ(ن) کے کلچر اور انکی سوچ کو اب بھی وہ تحریک انصاف کے اراکین سے زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔مسلم لیگ(ن) پنجاب میں جب بھی فارورڈ بلاک بنے گا،اس کی اصل وجہ مسلم لیگ(ق) ہی ہوگی کیونکہ جس طرح تحریک انصاف میں بڑی تعداد پیپلزپارٹی کے لوگوں کی ہے بالکل اسی طرح مسلم لیگ(ن) میں بہت بڑی تعداد مسلم لیگ(ق) کے لوگوں کی ہے،جو چوہدری برادران سے ذاتی تعلقات بھی رکھتے ہیں،اسی طرح گورنر پنجاب چوہدری سرور بھی مسلم لیگ(ن) کے توڑ کیلئے پنجاب میں ”تریاق“ کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ وہ بھی مسلم لیگ(ن) کی گورنری چھوڑ کر تحریک انصاف کی گورنری تک پہنچے ہیں۔
جو شکایات وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی طرف سے سامنے آئی ہیں ایسی شکایات ہر اتحادی حکومت میں ہوتی ہے۔ماضی میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو ایم کیو ایم،مولانا فضل الرحمان اور پیپلزپارٹی پٹریاٹ کی روزانہ کی بنیاد پر ایسی شکایات کو سننا اور انکا حل ڈھونڈنا پڑتا تھا۔بعد ازاں یہ مسئلے سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی درپیش رہے اور وہ مولانا فضل الرحمن کے علاوہ دیگر اتحادی دوستوں کے مسائل سنتے سنتے اپنی مدت پوری کر گئے اور پھر میاں نوازشریف کو بھی ایسے بے شمار مسائل کا سامنا رہا اور انکے ایک وزیر ریاض پیرزادہ ہر ماہ استعفی دیتے اور ہر ماہ انہیں منا لیا جاتا تھا۔ناراض ہونا اور پھر منا لیا جانا یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔