کورونا اور اندر کا جانور

0

انسان کی اصلیت جاننے کی جو چند کسوٹیاں ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی شخص کے کھانے پینے کے آداب کیا ہیں۔وہ لین دین میں کتنا پکا یا کچا ہے اور آزمائش کی گھڑی میں اس کا کردار اندر سے کیا نکل کے آتا ہے۔

جیسے فسادات کے دوران بہت سے لوگ سامنے والے کو بغیر جانے مارنے پیٹنے حتی کے قتل کر دینے سے بھی نہیں چوکتے مگر انھی کی وضع قطع کے کچھ لوگ مصیبت میں گھرے لوگوں کو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بچانے اور پناہ دینے کا کام بھی کرتے ہیں۔جیسے عمومی لوٹ مار میں اچھے بھلے دکھائی دینے والے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں اور لاشوں کی انگلیوں سے انگوٹھی تک اتار لاتے ہیں اور انھی جیسے چند لوگ لاشوں کی باعزت تدفین میں مشغول ہوتے ہیں۔

جیسے قلت کے وقت کچھ لوگ اس قلت کو تجوری بھرنے کا راستہ سمجھ کر مجبوریوں کی خرید و فروخت شروع کر دیتے ہیں اور انھی جیسی وضع قطع کے کچھ لوگ جو مال کمایا اسے ضرورت مندوں پر اپنے کل کی پرواہ کیے بغیر لٹا دیتے ہیں۔جیسے کچھ لوگ راہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہِ راست دکھانے کا کام کرتے ہیں اور انھی جیسے کچھ لوگ سیدھی راہ پر چلنے والوں کو بھی گمراہ کر کے لوٹ لیتے ہیں۔

حالانکہ میرے پاس ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس دلیل نہیں مگر میرا گمان ہے کہ مجھ سمیت ہر ایک کے باطن میں کوئی نہ کوئی جانور پوشیدہ ہے اور جیسے ہی آزمائش کا اندھیرا چھاتا ہے وہ نفس کی گپھا سے باہر نکل آتا ہے۔کسی کی طینت کبوتر و فاختہ و بطخ  و گائے ، بکری ، مرغی جیسی ہوتی ہے تو کسی کی فطرت شیر ، تیندوے ، بچھو ، سانپ، عقاب، بن مانس، کنکھجورے، لومڑی، بھیڑئیے، لگڑ بگے ، ریچھ یا اژدھے جیسی۔ یہ صفات افعالی کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی شبیہاتی بھی ہوتی ہیں۔ اور بہت سے اجنبی چہرے اور ان کے افعال بنا ان کے بارے میں کچھ جانے احسنِ تقویم بھی یاد دلا دیتے ہیں۔

جیسے ان دنوں کورونا وائرس کی عالمی وبا پھیلی ہوئی ہے۔سیکڑوں طرح کے واقعات اس ایک وبا سے جنم لے رہے ہیں۔مثلاً چین میں جب حکومت نے اپیل کی کہ کورونا سے لڑنے اور مریضوں کو سنبھالنے کے لیے رضاکار ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ چاہیے تو مسیحاؤں نے سیکڑوں کے حساب سے اپنی خدمات پیش کر دیں اور انھیں ٹرینیں بھر بھر کے سب سے متاثرہ صوبے ہوبے اور اس کے دارالحکومت ووہان بھیجا گیا۔ان مسیحاؤں کے اہلِ خانہ نے انھیں ایسے رخصت کیا جیسے محاذِ جنگ پر جانے والوں کو الوداع کہتے ہیں۔

ان میں سے کچھ کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔کچھ خود بیمار ہو گئے جیسے محاذِ جنگ پر سپاہی زخمی ہوتا ہے۔مگر ان بے لوث لوگوں نے بالاخر وائرس کا رخ موڑ دیا اور اب وہ کم ازکم چین اور جنوبی کوریا میں پسپائی پر ہے۔ایران پر اگرچہ امریکا کی اقتصادی پابندیاں لگی ہوئی ہیں مگر جتنے بھی وسائل میسر ہیں، ایران نے اس وائرس سے لڑائی میں جھونک دیے۔آیت اللہ خامنہ ای نے اس لڑائی میں جاں بحق ہونے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کو شہید قرار دیا ہے۔

دوسری جانب اٹلی سے ایسی خبر بھی آئی کہ میلان کے علاقے میں ایک معمر شخص جب اپنے ہی اپارٹمنٹ کے قرنطینہ میں مر گیا تو ہمسائیوں نے اس کے جسد کو منتقل کرنے کے سلسلے میں حکومتی کارندوں سے تعاون سے انکار کر دیا۔

آسٹریلیا میں سپر مارکیٹ چین وول ورتھ کے عملے نے جب دیکھا کہ شہری اتنے خوفزدہ ہیں کہ جو ہاتھ پاؤں کا اچھا ہے وہ زیادہ سے زیادہ اشیائے خورد و نوش سمیٹ رہا ہے اور چشم ِ زدن میں شیلف کے شیلف خالی ہو رہے ہیں جب کہ بوڑھے اور کمزور لوگ اژدھام کے سبب مارکیٹ کے اندر گھس نہیں پا رہے تو وول رتھ نے اعلان کر دیا کہ روزانہ ایک گھنٹہ صرف ساٹھ برس سے اوپر کے لوگوں اور جسمانی معذوروں کے لیے وقف ہو گا تاکہ وہ آسانی سے شاپنگ کر سکیں۔

امریکا میں سپر مارکیٹس اور بازاروں میں اتنی لپاڈگی مچی ہوئی ہے کہ خود صدر ٹرمپ کو سپر مارکیٹس کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات کرنے کے بعد لوگوں سے اپیل کرنی پڑی کہ گھبرا کر اپنے گھر مت بھریں۔زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کی خریداری کریں تاکہ تمام شہریوں کو کچھ نہ کچھ خریدنے کا موقع مل سکے۔ سپلائی میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ایسی ہی اطلاعات برطانیہ ، اسپین اور فرانس سے بھی موصول ہوئی ہیں۔

ہر کوئی جاپانی نہیں ہوتا۔وہاں بھی کورونا پھیلا ہوا ہے مگر افراتفری کی خبر شائد کبھی نہ آئے۔آپ کو غالباً یاد ہو کہ دو ہزار گیارہ میں جاپان میں سونامی آنے کے سبب فوکو شیما جوہری پلانٹ کو نقصان پہنچا اور تابکاری خارج ہونے لگی۔اردگرد کے علاقوں سے نہ صرف لاکھوں لوگوں نے عارضی نقل مکانی کی بلکہ پلانٹ سے کئی سو کلو میٹر پرے ٹوکیو جیسے مہذب شہر میں بھی سراسیمگی کے عالم میں لوگوں نے زائد از ضرورت خریداری کر کے شیلف خالی کر دیے۔ایک ہفتے بعد حکومت نے اعلان کیا کہ حالات قابو میں ہیں اگر آپ چاہیں تو فالتو اشیا دوبارہ اسٹور کو واپس کر کے رقم واپس لے سکتے ہیں۔تاکہ باقی ضرورت مند یہ اشیا خرید سکیں۔یہ اعلان ہوتے ہی ایک بار پھر لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں۔اب یہ قطاریں خریداروں کی نہیں بلکہ واپس کرنے والوں کی تھیں۔

سب کو معلوم ہے کہ اس وقت لوگ ماسک اور ہینڈ سینٹائزرز کی تلاش میں ہیں۔بہت سے دکان داروں نے دونوں اشیا ذخیرہ کر لیں۔جعلی سینٹائزر بھی بکنے لگے۔اور یہ حرکت مشرق سے مغرب تک ہر جگہ ہوئی۔ مگر پرفیوم اور آرائشی سامان تیار کرنے والے دو بڑی فرانسیسی کمپنیوں لوئی وتاں اور ایل وی ایم ایچ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہینڈ سینٹائیزرز کی پیداوار میں ہنگامی طور پر کئی گنا اضافہ کر رہی ہیں اور یہ سینٹائزر عوام میں مفت تقسیم کے لیے حکومت کو دیے جائیں گے۔دریں اثنا کراچی کی ایک سپر مارکیٹ میں حکام نے چھاپہ مار کے ایک سو بیس روپے کا سینٹائزر پانچ سو روپے میں بیچنے والے سیلز مین کو پکڑ لیا۔حالانکہ سیٹھ کو پکڑنا چاہیے تھا۔

ایک ایسے وقت جب دنیا کورونا ویکسین کی تلاش میں ہے اور کئی ممالک کے سائنسداں اس کام میں جٹے ہوئے ہیں۔جرمنی کی کمپنی کیور ویک نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی ویکسین کی آزمائش جون جولائی میں شروع کرے گی اور اگر تجربہ کامیاب رہا تو اسے دسمبر تک فروخت کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔خبر یہ نہیں بلکہ خبر اصل میں یہ ہے کہ جب کیور ویک کے چیف ایگزیکٹو ڈینیل مینشیلا نے دو مارچ کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تو ٹرمپ نے پیش کش کی کہ امریکا اس ویکیسن کی تیاری میں منہ مانگی مدد کے لیے تیار ہے بشرطیکہ یہ ویکسین سب سے پہلے امریکا کو فراہم کی جائے۔

یہ خبر جب ایک جرمن اخبار ویل ایم سونٹیگ نے بریک کی تو کیور ویک کے چیف ایگزیگٹو ڈینیل کو کمپنی مالکان نے بارہ مارچ کو عہدے سے ہٹا دیا اور یقین دلایا کہ جب یہ ویکسین تیار ہو گی تو پوری دنیا کو سپلائی کی جائے گی۔ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی جانور پوشیدہ ہے جو آزمائش کی گھڑی میں اندر سے نکل آتا ہے۔

(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس )

Leave A Reply

Your email address will not be published.