امریکہ طالبان امن معاہدہ۔توقعات اورخدشات
فریداحمد خان
ایک طویل اورصبرآزما انتظار کے بعد آخرکاردو ازلی حریفوں امریکہ اورافغان طالبان نے امن معاہدہ پردستخط کرلئے ہیں جس کا اعلامیہ جاری کردیا گیاہے جس کے مطابق یہ معاہدہ فوری طورپر نافذالعمل اورفریقین کی جانب سے اس کی پاسداری کرنے سے مشروط ہوگا ۔معاہدے کے چارنکاتی منصوبے کے تحت افغانستان سے امریکی واتحادی فوجوںکاانحلائاگلے چودہ ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا جبکہ ابتدائی طورپرآنے والے 135 دنوں میںافغانستان میں قائم پانچ فوجی مسقرختم کرکے وہاں موجود 8600 اامریکی اوراسی تناسب سے اتحادی افواج کو افغانستان سے نکال دیا جائے گا ۔
معاہدے کے تحت 10 مارچ سے پانچ ہز ارطالبان قیدیوں اورایک ہزارافغان اہکاروں کورہا کردیا جائے گا جس کے بعد منصوبے پرمذید پیش رفت کیلئے افغان حکومت اورطالبان میں مذاکرات شروع ہوں گے، معاہدے کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امریکہ طالبان پرعائد پابندیاں ختم کرے گا جبکہ اقوام متحدہ طالبان رہنماﺅں کواس معاملے میںکلیئر کرانے کیلئے سفارشات دے گا ، معاہدے کے آخری شرط کے مطابق افغان طالبان اس امرکویقینی بنائیں گے کہ مستقبل میں افغانستان کی سرزمین امریکہ یا اس کے اتحادیوں کیخلاف استعمال نہ ہو ۔۔
19سال بعدقطر کے شہر دوحہ میں ہونے والا اس امن معاہدہ کی اہمیت کے پیش نظردستخط کی تقریب میں پچاس سے زاہد ملکو ں کے نمائندوں نے شرکت کی ، ایسا لگا جیسے یہ صرف طالبان اورامریکہ کانہیں بلکہ پوری دنیا کامعاملہ تھا اورسب اس پرخوش ہیں۔اس میںدورائے نہیں کہ دنیاجنگوں اورتنازعات سے تنگ آچکی ہے وہ امن کی تلاش میں ہے اس لئے بے یقینی کے اس دور میں ہونے والا یہ معاہدہ امن کی جانب ایک زبردست پیشرفت نظر آتی ہے.
امریکہ طالبان کے درمیان اس معاہدہ کے کئی پہلو ہیں، اگراچھی نیت کے ساتھ درست سمت میں معاہدے پرعمل کیا جائے اورفریقین اس کی مکمل پاسداری اور شرائط پرعمل کریں تواس کے انتہائی مثبت اوردور رس نتائج سامنے آ سکتے ہیں ایسی صورت میںیہ معاہدہ مخص فریقین تک محدود نہیںرہے گا بلکہ یہ تمام قوموں کیلئے امن کاپیامبر بن جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاہدے سے ممکنہ طورپربھارت کے ان کروڑوں مسلمانواورمحصور کشمیریوں کیلئے بھی خیر کی فضاقائم ہوسکتی ہے.
یہ سب آج آرایس ایس کے نظریے میںڈوبے بھارتکی بدترین، پرتشدد وانتہاپسندانہ سوچ اورپالیسیوں کا سامنا کررہے ہیں. شاید معاہدے پرعملدرآمد سے بھارتی رویوں میںکوئی مثبت تبدیلی آجا ئے۔ اور مسئلہ کشمیر پرپیشرفت ہو۔
موجودہ حالات میں یقین سے کہا جاسکتاہے کہ امریکہ طالبان امن معاہدہ بہت نیک نیتی سے تشکیل پایا گیا ہے، فریقین کو اس امن معاہدہ تک پہنچنے کیلئے قدم قدم پرمشکلات کاسامناکرناپڑا۔
کبھی امریکہ کسی نکتے پراڑ گیا توکبھی طالبان نہ مانے ۔چندماہ قبل تو یہ حالت ہوگئی تھی کہ صدرٹرمپ نے زچ ہوکر بذات خودامن معاہدہ کوترک کرنے کی ٹھان لی اورطالبان سے رابطے توڑنے کااعلان کیا، لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود یہ بات طے تھی کہ فریقین معاہدے کیلئے ذہنی طورپرتیار ہیں،اس لئے زلمے خلیل زاد ، ملابرادر اورپاکستان کی مخلصانہ کوششیں جاری رہیں آخرکار رابطے بحال ہوگئے اور موجودہ معاہدہ طے پاگیا۔
اس معاہدے کے مندراجات قابل عمل اورمعقولیت پرمبنی ہیں اورفریقین کیلئے قابل قبول بھی ،لیکن منصوبے پرعملدرآمد کے دوران ممکنہ طورپر دوبنیادی چیزیں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ پہلا ایشوافغان حکومت کوتسلیم کرنے یا نہ کرنے سے متعلق ہے، وہ یہ ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت غیرتسلیم شدہ ہے موجودہ صدراشرف غنی کے مخالف صدارتی امیدوارعبداللہ عبداللہ کے علاوہ رشید دوستم ،گلبدین حکمت یار اوراستادمحقق سمیت مختلف افغان قوتیں صدارتی انتخابات کے نتائج مسترد کرچکی ہیں.
یہ تمام سیاسی قوتیں جو ایک دوسرے کی شدید مخالف ہیں اس کے باوجودصر ف ایک نکتے پرمتفق ہیں کہ کسی بھی قیمت پر اشرف غنی کی موجودہ حکومت کوتسلیم نہیں کیا جائے گا ،ان کامطالبہ ہے کہ انتخابی نتائج، جس کااعلان گزشتہ سال 20 ستمبر کوہوناتھا، میں تاخیر کی وجوہات سامنے لا ئی جائیں،اس معاملے میں موجودہ اشرف غنی کے حریف عبداللہ عبداللہ بہت آگے جاچکے ہیں اورانہوں نے اپنی الگ حکومت قائم کرنے کا اعلان بھی کردیاہے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ صورتحال آسان نہیں بلکہ زیادہ سنگین ہے جس کااگرتدارک نہ کیا گیا توشاید ہی امن معاہدہ کارآمد ثابت ہو۔اب یہ امریکہ کوسوچناہے کہ وہ کس طرح اس امن معاہدے کوقابل قبول اورقابلف عمل بناتاہے تاکہ صدر ٹرمپ کی دوبارہ کامیابی کی راہ ہموارہو اور اسے افغانستان سے نکلنے کی راہ مل سکے ، کیونکہ امن معاہدے پرعملدرآمد اورافغانستان سے امریکہ کا انخلاءہی صدارتی الیکشن میں کامیابی کی کنجی ہے۔
دوسرا ایشوامن منصوبے کے آخر ی نکتے سے متعلق ہے جس کے تحت طالبان کو یہ بات یقینی بناناہوگی کہ مستقبل میں افغانستان کی سرزمین امریکہ یا اس کے اتحادیوں کیخلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی یہ شرط معقول مگراس حوالے سے پرخطر ہے کہ طالبان، جنہوں ایک طویل جدوجہد کے بعد دنیا کی واحدسپرپاور سے اپنی حیثیت منوائی ہے اور اسے اپنے ساتھ معاہدے کرنے پرمجبور کردیا ہے.
وہ اپنی حد تک ہرممکنہ طورپر اس شرط پرعمل کرنے کے خواہاں ہوں گے اوراس کیلئے سرتوڑ کوششیں کریں گے لیکن کہیں کوئی اور قوت یا غیبی ہاتھااس معاملہ میں حائل ہونے کی کوشش نہ کرڈالے ۔ کیونکہ ہمارا خطہ رنجشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے ،دیگر باتوں سے قطع نظر اس میں بھارت کی شدت پسندی، شرپسندی ، مذہبی جنونیت، منفی اورجاہلانہ سوچ ورویئے، انسان کی اعلٰی وارفع حیثیت سے انتہائی غفلت وحد درجہ لاپرواہی اورگاﺅماتا کی پرچارمیں رنگے جذبات نے پورے خطے کولپیٹ میں لے رکھا ہے.
اپنی بالادستی کے زعم میں اس نے خطے کے تمام ممالک کومشکل میں ڈالا ہے اپنی ہندووانہ فطرت کے باعث وہ کوئی بھی ایسی سازش یا حرکت کرسکتاہے جس سے خطے کاامن تباہ اورامن معاہدے کو نقصان پہنچ سکے ، وہ امریکہ کادوست مگر طالبان سے حد درجہ نالاں ہے اوران کو پاکستان کی تخلیق سمجھتے ہوئے روابط سے گریز کررہا ہے اس لئے معاہدے کے فریقین کے ساتھ ساتھ اس خطے اوردنیا بھرمیں امن کے چاہنے والے تمام لوگوں کوان خدشات پرغور اورتوجہ دیناہوگی۔
دنیا جانتی ہے کہ امریکہ طالبان امن معاہدہ حقیقت میں پاکستان کی ان مسلسل اورموثر کوششوں کا نتیجہ ہے جو پاکستان میںبدامنی پھیلانے کے ذریعے امن عمل کوروکنے کیلئے سرتوڑبھارتی کوششوں کے باوجودبھرپور انداز میں تواترکے ساتھ جاری رہیں۔ بھارت ہرگز نہیں چاہتانھا کہ افغانستان میںامن آئے اورپاکستان اس کے ثمرات سے فیض یاب ہوکرترقی کا سفر جاری رکھے۔ اس کادوست سپرپاورامریکہ بھی اس سے واقف ہے کہ بھارت نے اسرائیل کے ساتھ مل کر امن عمل کو راہ سے بھٹکانے کیلئے تمام حربے ازمائے ہیں۔
اس کی یہ خواہش تھی کہ امن عمل کامیاب نہ ہو ،یا افغانستان میں امن آتابھی ہے تواس میں پاکستان کی بجائے اسی کا جاندار کردار ہو ، ورنہ امن کامعاہدہ ہی نہیں ہوناچاہیے ۔ اس لئے بھارت نے ہر سطح پر کوشش کی کہ یہاں امن کی سوچ ہی کوتقویت نہ ملے اور پاکستان میں امن نہ آٰئے ۔لیکن شاید اللہ تعالٰی کواس خطے پر ر حم آگیا ہے کہ اس راہ میں بھارت کی ایک نہ چلی بلکہ اسے امن معاہدے کے معاملہ ٹھیک طرح سے سبکی کاسامنا کرناپڑا ہے،امن معاہدے کی تقریب میں وہ بادل نخواستہ شریک ضرور ہوا لیکن وہ اس معاہدے سے آج مخلص ہے نہ آئندہ رہے گا اس لئے اگر امن منصوبے کوکامیاب بنانے کیلئے بھارت کواس سے دور رکھا جائے یہی بہترین حکمت عملی ہوگی۔
یہاں یہ بتانا بے مقصد نہیں ہوگا کہ امریکہ طالبان امن معاہدے نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ جب دنیاکی واحد سپرپاورکوئی ایشو حل کرنے کافیصلہ کرلے تو مسئلہ چاہے کتناپیچیدہ ہو، حل ہوجاتاہے ، اوراس میںکوئی رکارٹ نہیں آتی، اس طرح کے فیصلے کبھی کبھی اور ناپ تول کر کئے جاتے ہیں جن کیلئے ٹرمپ جیسے لیڈروں کوپیدا کیا جاتاہے، ( پاکستان کی طرح وہاں بھی لیڈر بنائے جاتے ہیں)، کیونکہ بڑے کام ہرکوئی نہیں کر سکتا۔ ایسے لوگ خاص الخاص اوراپنی سوچ وفکر اورنظریات میں دوسروں سے جدااور باالکل کلیئر ہوتے ہیں، جس کی واضح مثال ٹرمپ ہیں۔
چار سال قبل جب ری پبلکن پارٹی نے ٹرمپ کو صدارتی امیدوارنامزد کرلیا، تو لوگوں کویقین نہیںآیا تھا وہ کہتے تھے کہ ٹرمپ نہیں جیتے گا،اگرجیت گیا، توپہلا ٹرم پورا کئے بغیر ان کو رخصت کردیا جائے گا ،لیکن وہ کامیاب ہوا اوراب امریکیوں کیلئے کانٹے چن رہا ہے ،پہلاکام شمالی کوریا کے ساتھ روابط قائم کرکے کیاجس سے امریکہ کوبلاوجہ کی سردردی اوردنیاکوایک ایسے ایٹمی جنگ کے نام نہادخطرے سے نجات دلائی جوکبھی ہونی ہی نہیں تھی۔
طالبان کے ساتھ امن معاہدہ ٹرمپ کادوسرا بڑا فیصلہ ہے جس کے ذریعے وہ امریکہ کوافغانستان سے نکالنا چاہتاہے دوسرے لفظوں میں ٹرمپ نے یقینی شرمساری کاداغ لئے بغیرامریکہ کو افغان دلدل سے نکالنےکا معاہدہ کرلیا ہے ، امن معاہدے کو بھی وہ کامیاب بنائیں گے اب ہم یہ سوچ کرخوش ہوں کہ اس کے بعد ٹرمپ مودی کو مسئلہ کشمیر کے حل پرراضی کریں گے تو کیاخرج ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ امریکہ نے نائن الیون کوبہانہ بنایاتھا اورافغانستان پر چڑھائی کرکے طالبان پر سینکڑوں فضائی حملے کئے، میزائل داغے ، چھوٹے بم، بڑے بم ، کلسٹربم ، مدرآف بم گرائے ،ہزاروں بے گناہوں کومارا ، آبادیاں تباہ کیں ،نہ مرنے والوں کوچھوڑا نہ ان پرنوحہ کرنے والوں کو بخشا ،ہسپتالوں میں علاج کیلئے آنے والوں کوتاراج کیا، مہمانوں سے بھرے شادی ہالز ویران کئے ، اپنے ہزاروں فوجی مروائے اور لاتعداد کوافغانیوں کے خوف کا اسیر بنایا ، اورآخر میں ساری دنیا کی معاونت سے طالبان مخالف حکومت قائم کی،لیکن طالبان کوختم نہ کر سکا اور وہ ڈٹے رہے مگر ٹرمپ کا یہ کمال ہوا کہ اس نے منا لیا.