سیاسی لکیریں
شمشاد مانگٹ
مسلم لیگ (ن) میں دراڑیں بالکل واضح ہوتی نظر آرہی ہیں ۔2014ء کے دھرنوں سے مسلم لیگ (ن) نے جو زلزلے کے جھٹکے محسوس کرنے شروع کئے تھے پاناما پیپرز کے بعد ان میں شدت آگئی تھی ۔ ان سیاسی زلزلوں کے آفٹر شاکس مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ساتھ رائے ونڈ میں بھی بھرپور محسوس کئے گئے ۔ میاں نواز شریف دھرنوں اور بعد ازاں پاناما پیپرز کے آفٹر شاکس کا مرکز راولپنڈی کو ہی قرار دیتے رہے ہیں ۔ حالانکہ پاناما پیپرز کا راز افشاء راولپنڈی کی بجائے عالمی سطح پر ہوا تھا اور میاں نواز شریف کے من پسند میڈیا گروپ نے یہ پردہ چاک کیا تھا اس کے باوجود میاں نواز شریف ان آفٹر شاکس کی وجہ راولپنڈی کو ہی قرار دیتے ہیں ۔
پاناما پیپرز کے بعد بھی رائے ونڈ محل میں اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے اور محترمہ تہمینہ درانی نے میاں نواز شریف اور اپنی ” جٹھانی“ محترمہ کلثوم نواز پر طعنوں کے تیر برسائے تھے اور اب ایک بار پھر میاں نواز شریف خلائی مخلوق کو اپنا دشمن قرار دے رہے ہیں جبکہ میاں شہباز شریف اس کے برعکس بول رہے ہیں اور ان کی اہلیہ تہمینہ درانی کا کہنا ہے کہ خلائی مخلوق ملکی سرحدوں کی حفاظت کیلئے جانوں کی قربانی دے رہی ہے میاں نواز شریف اورمحترمہ مریم نواز کی بغاوت نے اقتدار اور پارٹی کو مکمل طور پر دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے ۔ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی اداروں پر حملوں کے ساتھ ساتھ الیکشن سے بائیکاٹ کا پروگرام بناتے ہوئے نظر آرہے ہیں جبکہ میاں شہباز شریف تیزی سے پارٹی پر کنٹرول سنبھال رہے ہیں ۔
موجودہ سیاسی صورتحال میں اگر میاں شہباز شریف نے کھل کر میاں نواز شریف سے بغاوت کردی تو وہ مسلم لیگ (ن) کا بڑا ووٹ بینک بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اراکین نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے اور میاں نواز شریف کے انٹرویو پر تحفظات کااظہار بھی کردیا ہے مسلم لیگ (ن) کے اراکین پارلیمنٹ کی بہت بڑی اکثریت میاں نواز شریف سے متفق نہیں ہے آخری کوشش کے طور پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور سپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق میاں نواز شریف سے مل کر انہیں قائل کرنے کی ناکام کوشش کرچکے ہیں ۔
میاں نواز شریف نے اپنی سیاست کیلئے جو لکیر کھینچی ہے اس کے مطابق جو بھی مسلم لیگی اس لکیر کو عبور کرکے میاں نواز شریف کی سیاست کا حامی ہوگا اسے عوام اب عبرت کا نشان بنا دینگے اسی لئے اب ایک لکیر میاں شہباز شریف نے بھی کھینچ دی ہیں میاں شہباز شریف نے واضح پیغام دیدیا ہے کہ سرخ لائن عبور کرکے میاں نواز شریف کا انٹرویو کرانے والے نے پارٹی کے ساتھ ظلم کیا ہے میاں نواز شریف کا ” دشمن دار“ انٹرویو کرانے والوں میں محترمہ مریم نواز اور پرویز رشید مرکزی کردار سمجھے جارہے ہیں ۔
لہذالکیر کے اس پار میاں نواز شریف محترمہ مریم نواز اور پرویز رشید ہیں جبکہ لکیر کے اس طرف میاں شہباز شریف ، چوہدری نثار اور مسلم لیگ کے اراکین کی بڑی تعداد موجود ہے میاں شہباز شریف ، چوہدری نثار علی خان زیادہ کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ پارٹی کے اندر ان کی قبولیت اور مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ میاں نواز شریف کے طرز سیاست نے انہیں مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی اور رائیوانڈ محل کے اندر بھی تنہا کردیا ہے ۔
میاں نوازشریف اور محترمہ کلثوم نواز مریم نواز کے طرز سیاست کو دیکھتے ہوئے اب قومی سطح پر یہ بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ قومی سلامتی کے اداروں نے بھی اب میاں نواز شریف کیلئے ایک لکیر کھینچ دی ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی چالیس سالہ نیکیاں بھلا کر دشمن کیلئے کام کرنیوالا نواز شریف اور اس کی صاحبزادی اب کبھی اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں ہونگے ۔ وفاقی دارالحکومت میں ایسی خبریں گردش کررہی ہیں کہ میاں نواز شریف کوئی نہ کوئی ”جگاڑ“ لگا کر اپنی صاحبزادی سمیت بیرون ملک چلے جائینگے اور باقی زندگی بانی قائد ایم کیو ایم الطاف حسین کی طرح گزاریں گے اور مسلم لیگ مکمل طور پر میاں شہباز شریف کے قابو میں آجائے گی اور رائے ونڈ محل پر بھی انہیں کا کنٹرول ہوگا لیکن وہاں راج محترمہ تہمینہ درانی کرینگی۔
مسلم لیگ (ن) کے زیادہ تر اراکین اس بات پر حیران ہیں کہ آخر وہ کون سی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی ملکی مفاد کی بجائے بھارتی مفاد میں انٹرویو دینے پر مجبور ہوئے ؟ میاں نواز شریف یا پھر مریم نواز ہو یا کوئی اور سیاستدان ہو اگر اس نے سیاست پاکستان میں کرنی ہے تو پھر پاکستان کے مفادات اور نظریات کا بھی خیال رکھنا لازمی ہے لیکن میاں نواز شریف اور مریم نواز کی زبان بتا رہی ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے میاں نواز شریف موجودہ صورتحال سے اگر کوئی فائدہ اٹھا کر بیرون ملک چلے بھی گئے تو مورخ انہیں ایک اور سکندر مرزا کے طور پر یاد رکھے گا ۔