سیاسی بھوت
شمشاد مانگٹ
اصغر خان کیس بھٹو مخالفین کا پچھلے21برس سے سیاسی بھوت کی طرح پیچھا کر رہا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بی بی سی نے اپنے تبصرے میں کہا تھا کہ مردہ بھٹو جنرل ضیاء الحق کیلئے زندہ بھٹو سے زیادہ خطرناک ہوگا اور بھٹو کا سیاسی بھوت جنرل ضیاء الحق کا تعاقب کرتا رہے گا۔ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی بھوت نے بلاشبہ ابھی تک ضیاء الحق کی باقیات کیلئے مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اب ایک اور سیاسی بھوت جنرل ضیاء الحق کی باقیات کے پیچھے دونوں ہاتھ دھوکر پڑھ گیا ہے اور وہ ائیرمارشل اصغرخان کا سیاسی بھوت ہے ۔
ذوالفقار علی بھٹو جب اپنے عروج پر تھے تو اصغرخان مرحوم انکے بدترین مخالفین میں شمار ہوا کرتے تھے اور یہ اصغرخان ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا مطالبہ کیا تھا اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ بھٹو کو ہالہ کے پل پر پھانسی دی جائے۔
جب جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو انہوں نے ائیرمارشل اصغرخان مرحوم کی سنیارٹی اور بدبے کو دیکھتے ہوئے انہیں اپنے ٹولے میں شامل کرنے سے انکار کردیا تھا۔جنرل ضیاء الحق نے اپنے ساتھ صرف ایسے لوگوں کو شامل کیا جو انکی رٹ کو تسلیم کریں اور”جی حضوری“ صلاحیتوں سے مالامال ہوں۔
اپنے جونیئر فوجی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی بے رخی دیکھتے ہوئے اصغرخان نے بھی ان سے کنارہ کرلیا تھا۔جنرل ضیاء الحق1988ء میں جب فضائی حادثے کا شکار ہوئے تو اپنے سیاسی پسماندگان کی ایک طویل فہرست چھوڑی تھی۔اسٹبلشمنٹ کی چھتری تلے سیاست کا مشن ایوان صدر میں غلام اسحاق خان اور پنجاب میں میاں نوازشریف نے سنبھالا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کا سیاسی زور توڑنے کیلئے اسٹبلشمنٹ نے1988ء میں ہی آئی جی آئی بنا ڈالی تھی اور غیر اعلانیہ طور پر میاں نوازشریف کو ہی اسکا سرپرست بنایا گیاتھا۔صرف18ماہ کے اقتدار کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو ناکام ظاہر کرکے اسٹبلشمنٹ نے غلام اسحاق خان کے قلم سے آرٹیکل58/2 بی کا نفاذ کرکے رخصت کردیاتھا۔اسٹبلشمنٹ چونکہ پہلے بھٹو کی پھانسی کی کامیاب ”واردات “اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی بظاہر ناکامی کی وجہ سے بہت دلیر ہوگئی تھی اس لئے1990ء کے الیکشن میں اسٹبلشمنٹ نے نہ صرف آئی جے آئی کے ٹکٹ ہولڈروں کی فتح کیلئے راستہ ہموار کیا بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے ایوانِ صدر میں سیاسی سیل کھول کر140 ملین روپے بھی سیاستدانوں میں تقسیم کروائے۔پنجاب سے تعلق رکھنے والے سابق نگران وزیراعظم ملک معراج خالد نے بھی عمر کے آخری حصے میں اسٹبلشمنٹ کے درخت کا پھل چکھنے کیلئے عصر کے وقت روزہ توڑا اور آئی ایس آئی سے رقم وصول کی۔
چونکہ شریف فیملی اس وقت اسٹبلشمنٹ کی امیدوں کا مرکز ہوا کرتی تھی اس لئے اس فیملی کے تین افراد کو”سرکاری نیاز“ سے نوازا گیا۔عباس شریف مرحوم،میاں شہبازشریف اور میاں نوازشریف بھی آئی ایس آئی سے رقم لیکر الیکشن لڑنے والوں میں شامل تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سندھ اور پنجاب میں انتہائی اہم عہدوں پر لطف اندوز ہونے والے غلام مصطفیٰ جتوئی اور غلام مصطفیٰ کھر نے بھی آئی ایس آئی کی دیگ سے اپنے حصے کی ”خیرات “وصول کی جبکہ محمد خان جونیجو اور سیدہ عابدہ حسین بھی سیاسی خیرات لینے والوں میں شامل تھے۔پندرہ سال بعد ہی ہماری سیاست کا پہیہ اس طرح گھومتا ہوا نظر آرہا تھا کہ یقیناً ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کی روحیں عالم ارواح میں ورطہء حیرت میں غرق ہوں گی۔
کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو پر جان نچھاور کرنے کے دعویدار آئی ایس آئی کے گیٹ پر ہاتھوں میں کاسہ لئے ہوئے کھڑے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا مطالبہ کرنیوالے اصغر خان محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ سیاسی اتحاد کرکے حقیقی جمہوریت کی بحالی کیلئے کوششیں کر رہے تھے۔خود اصغر خان مرحوم بھی یقینی طور پر سوچتے ہوں گے کہ جس بھٹو کی پھانسی کیلئے دن رات مہم چلائی اب اسی بھٹو کی بیٹی کے ساتھ لاکھوں کے مجمع میں جئے بھٹو کے نعرے بھی لگانے پڑے۔
ائیرمارشل اصغرخان مرحوم نے تمام عمر جدوجہد میں گزاری،پہلے ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف جدوجہد کرتے رہے اور پھر بھٹو مخالف قوتوں کیخلاف جدوجہد کرتے رہے۔مرحوم مدعی اصغرخان نے 16جون1996ء کو سابق چیف جسٹس مرحوم سید سجاد علی شاہ کے نام لکھے گئے خط میں اس”سیاسی واردات“ سے پردہ اٹھایا تھا۔اور اس خط میں بتایا گیا تھا کہ سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ،سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی اور سابق صدر غلام اسحاق نے ملکر محترمہ بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کیلئے یہ رقم تقسیم کی تھی۔
سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کیلئے یونس حبیب نے مہران بنک سے اہتمام کیا تھا۔عدالت کو بتایا گیا کہ اس رقم میں سے 3 کروڑ روپے مرزا اسلم بیگ کی”فرینڈز“ نامی این جی او کو بھی دئیے گئے۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اصغر خان کیس کی سماعت کی تھی اور پھر انہوں نے اپنے فیصلے میں ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کرنے اور رقوم لینے والوں کیخلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا۔رقوم لینے والوں میں اس وقت سب سے اہم شخصیت میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف ہی ہیں کیونکہ مدعی مقدمہ سمیت اس مقدمہ کے کئی اہم کردار دنیا چھوڑکر اللہ کی عدالت میں پیش ہوچکے ہیں۔
میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کیلئے اصغر خان کیس ایک سیاسی بھوت سے کم نہیں ہے۔2012ء میں جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس کیس کا فیصلہ سنایا تو بدقسمتی سے پیپلزپارٹی کی حکومت کا چل چلاؤ تھا اور ویسے بھی پیپلزپارٹی میثاق جمہوریت کیوجہ سے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کی زیادہ خواہشمند بھی نہیں تھی۔نگران حکومت نے بھی اپنی مدت میں اس کیس کو لاوارث ہی سمجھا اور پھر مسلم لیگ(ن) کی حکومت آنے کے بعد اس کیس کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیاگیا اور کسی کو یاد تک بھی نہیں تھا کہ اصغرخان کیس پر عملدرآمد بھی ضروری ہے۔
بھلا ہو مرزا اسلم بیگ اور جنرل(ر) اسد درانی کا جنہوں نے نظرثانی اپیلیں دائر کرکے اس کیس کے سانس بحال رکھے ہوئے تھے۔گزشتہ روز جب سپریم کورٹ نے ان اپیلوں کی سماعت کی تو اصغر خان کا سیاسی بھوت ایک بار پھر بوتل سے باہر نکل آیا۔اس سیاسی بھوت نے مرزا اسلم بیگ،جنرل(ر) اسد درانی سمیت میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔عدالت عظمیٰ نے دو ریٹائرڈ جرنیلوں کی نظرثانی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے ایف آئی اے کو فوری طور پر عدالتی حکم کے مطابق تحقیقات مکمل کرنے اور ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔
قابل غور اور تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ مرحوم اصغر خان اپنی زندگی میں اس ”سیاسی ڈکیتی“ کے مرکزی کرداروں کا انجام نہ دیکھ سکے۔اصغرخان تو بڑے آدمی تھے اس لئے انکا سیاسی بھوت عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ مارنے والوں کا تعاقب کر رہا ہے لیکن عام آدمی زندگی بھر انصاف کیلئے ٹکریں مارتا ہے اور مرنے کے بعد اس کی فائل ہمیشہ کیلئے بند ہو جاتی ہے۔