( گیارہ نکاتی لارا لپّہ( پارٹ ۔ٹو
شمشاد مانگٹ
تحریک انصاف کا ایک اور ناقابل یقین وعدہ کرپشن کا خاتمہ ہے۔ کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جسکا علاج فی الحال دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ کرپشن محکمہ پولیس میں کسی اور شکل میں ہے اور ایف آئی اے والے یہ ”واردات“ قدرے دوسری شکل میں کرتے ہیں اور محکمہ کسٹمز والے کرپشن کی مالا بالکل ہی منفرد انداز میں پہنتے ہیں۔
کرپشن اعلیٰ ترین عہدوں سے شروع ہو کر چپڑاسیوں تک موجود ہے۔ ایف آئی اے اور نیب کا قیام کرپشن روکنے کے لئے تھا لیکن ہماری بد قسمتی دیکھئے کہ دونوں محکموں میں موجود کالی بھیڑیں کرپشن کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہیں ۔ نیب میں جسٹس (ر) جاوید اقبال ان کالی بھیڑوں کے گرد شکنجہ کس رہے ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق ملک میں روزانہ 12ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت محکمہ پولیس میں 50فیصد اور محکمہ مال میں بھی اسی مقدار سے کرپشن روکنے میں کامیاب ہو گئی تو عوام کے دل کو تسلی ضرور ملے گی کہ کم از کم سفر درست سمت میں شروع ہو گیا ہے۔ کرپشن کا جن قابو کرنے کے لئے تحریک انصاف اگر ہر محکمے اور وزارت کا وزیر ایماندار تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئی تو 50فیصد کامیابی مل جائے گی وگرنہ یہ طوفان پہلے سے بھی زیادہ شدید ہو سکتا ہے۔
تحریک انصاف نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر بیرونی سرمایہ کاری کو بڑھائے گی اور بجلی و گیس پر ٹیکس کم کئے جائیں گے۔ یہ دعویٰ اس لئے بودا نظر آتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کار فی الحال پاکستان کا سیاحتی دورہ کرنے کے بھی موڈ میں نہیں ہیں۔ بے شک پاکستان میں دہشتگردی کم ہوئی ہے لیکن خطے میں طاقت کا توازن ابھی درست نہیں ہے۔ بھارت، افغانستان اور بنگلہ دیش پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے ہر گھٹیا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ایران سے بھی ہمیں ٹھنڈی ہوائیں آتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ البتہ چین اپنے سی پیک ایجنڈے کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ جڑ کر مزاحمت کے لئے تیار ہے۔ لہذا فی الحال ایسا ماحول ہی نہیں ہو گا کہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں اپنا پیسہ لگائیں ۔ ویسے بھی پاکستان میں زیادہ تر سرمایہ کار وہی آتے ہیں جنہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ کوڑیاں خرچ کر کے سونے کی بوریاں بھر کر لے جائیں گے۔
جہاں تک بجلی اور گیس کے بلوں پر ٹیکس کم کرنے کا دلاسہ ہے تویہ بھی غیر فطری نظر آ رہا ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو پٹرول تقریباً 100روپے فی لیٹر تھا اور اب جارہی ہے توحساب برابر کر کے جا رہی ہے اور ڈالر کی پرواز کو دیکھتے ہوئے اندازے لگائے جا رہے ہیں بجلی اور گیس مزیدمہنگے ہونگے یعنی پاکستانی عوام کے لئے جینا پہلے ہی آسان نہیں تھا اور اب مرنا اور بھی مشکل ہو چکا ہے۔
تحریک انصاف نے چھٹا دعویٰ روزگار کی فراہمی سے متعلق کیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ روزگار کے مواقع کیسے پیدا کئے جائیں گے؟ 2002ء سے لیکر 2018ء تک مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)ہر ادارے میں ضرورت سے زیادہ اپنے ورکر ایڈجسٹ کر چکی ہیں ۔ پی آئی اے کے در و دیوار لرز رہے ہیں۔ ریلوے کی چیخیں ملک کے طول و عرض میں سنائی دے رہی ہیں پاکستان سٹیل ملز کو مفت دینے کی باتیں چل ر ہی ہیں۔ لے دیکر چند لاکھ افراد کو محکمہ تعلیم اور دیگر محکموں میں کھپایا جا سکتا ہے لیکن 20کروڑ کی آبادی والے ملک کو سالانہ کم از کم 50لاکھ نوکریاں پیداکرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ تحریک انصاف نے اگر ڈوبتے ہوئے سرکاری اداروں کو بچا لیا اور نوکریاں پورے ملک میں میرٹ پر فراہم کی گئیں تو لوگ عمران خان کے وعدے پر اعتبار کے لئے تیار ہو ہی جائیں گے۔
تحریک انصاف نے ملک میں سیر و سیاحت کو ترجیح دینے کا بھی وعدہ کیا ہے لیکن سیر و سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم دبئی طرز کی ”تفریحات“ کا بندوبست کیا جائے لیکن اگر ایسا اہتمام کرنے کی کوشش کی گئی تو کئی خادم حسین رضوی سڑکوں کو بلاک کرنے کے لئے بے چین ہو جائیں گے اور الٹا سیر و سیاحت کے خواہشمند سیاح مزید خوف زدہ ہو کر پاکستان سے تائب ہو جائیں گے۔ محض پہاڑوں اور چشموں کو قریب کھڑے ہو کر دیکھنے والے بہت کم سیاح ہوتے ہیں۔ سیر و سیاحت کے لئے ”جملہ“ ضروریات فراہم کئے بغیر اسکا فروغ تقریباً ناممکن ہے اس لئے امید یہی ہے کہ پانچ سال بعد بھی سیر و سیاحت کا فروغ مولانا خادم حسین رضوی کے دھرنے کا محتاج ہو گا۔
تحریک انصاف نے آٹھواں وعدہ زراعت کو بہتر بنانے سے متعلق کیا ہے۔ تحریک انصاف نے اگر کسانوں کو بیج ، زرعی ادویات اور ڈیزل مفت فراہم نہ بھی کیا تو کسان ان سے ناراض نہیں ہونگے البتہ تحریک انصاف اگر گنے کے کاشتکاروں کے ساتھ انصاف نہ کر سکی تو یہ بہت دکھ کی بات ہو گی کیونکہ گزشتہ10سال میں گنے کے کاشتکار ذلیل و خوار ہو گئے ہیں اور دو صوبوں کی پولیس نے شوگر ملز مالکان کے لئے ”اجرتی قاتل“ کا کردار ادا کیا ہے اور کسانوں کو معاشی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ اس وقت پنجاب میں گندم کا سرکاری ریٹ 1300روپے فی من چل رہا ہے لیکن بیوپاری مافیا حکومتی کارندوں سے مل کر کسانوں کو1000روپے فی من گندم فروخت کرنے پر مجبور کر رہاہے۔ ہر ضلع میں من پسند چند ایک کسانوں کو باردانہ دیا جارہا ہے۔ تحریک انصاف نے اگر کسانوں کو انکی صحیح اجرت دینے کا وعدہ پورا کر دیا ہے تو کسان تحریک انصاف کے صدقے واری ہو جائیں گے لیکن یہ کام آسان نہیں ہے کیونکہ 31مئی کے بعد صرف سیاستدان اختیارات سے محروم ہونگے مگر بیورو کریسی کی گندی مچھلیاں گند ڈالنے کے لئے اپنی جگہ پر موجود ہونگی۔ تحریک انصاف کا نواں وعدہ فیڈریشن کو مضبوط کرنا ، تمام صوبوں کو مساوی حقوق دینا اور پولیس نظام کو بہتر بنانا ہے۔ عمران خان کے لئے پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنا پنجاب اور سندھ میں بہت مشکل ہو گا کیونکہ سندھ کے پولیس افسران اب تقریباً ”جیا لائی“ طبیعت میں ڈھل چکے ہیں اور پنجاب میں ”شریفانہ“ اختیارات سے تجاوز پولیس کی عادت بن چکا ہے۔
سندھ اور پنجاب میں اگر عمران خان خیبر پختونخواہ کی طرح باکردار آئی جی ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے تو مسائل حل ہو جائیں گے۔ وگرنہ تحریک انصاف کا یہ وعدہ بھی پانچ سال بعد ڈنٹونک کے چھوٹو کی طرح عمران خان کا منہ چڑا رہا ہو گا۔ اسی طرح وفاق کی مضبوطی کے لئے عمران خان کو سیاسی قوتوں کی ضرورت ہو گی لیکن گزشتہ پانچ سال کی تقریروں اور دھرنوں کے بعد عمران خان کے لئے سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل کرنا تقریباً نا ممکن ہو گا۔ وفاق کی مضبوطی کے نام پر مولانا فضل الرحمن اپنی ”ڈیزل “ والی چھیڑ کو نہیں بھول پائیں گے اور وفاق کی مضبوطی کے سوال پر آصف علی زرداری اپنے خلاف کپتان کے بیانات کی ڈائری ہر وقت بغل میں لگائے رکھتے ہیں اور وفاق کی مضبوطی کے لئے مسلم لیگ (ن) عدالتوں کی پیشیاں اور ”ٹبر چور“ کی اصطلاح کبھی نہیں بھول پائے گی لہذا یہ بھی بے معنی وعدہ ہے۔(جاری ہے)