ہیرو بنانے والی فیکٹریاں

0

شمشاد مانگٹ

پاکستان میں طاقتور لوگوں کے احتساب کی بات ایسی ہی ہے جیسے خواجہ سرا بھی والدین بننا شروع ہوجائیں ۔ وزیراعظم عمران خان کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جب وہ اس بات کا اعلان نہ کریں کہ چوروں کو نہیں چھوڑوں گا حالانکہ اپنی رضا مندی سے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف لندن جا کر موجیں کررہے ہیں اور اب محترمہ مریم نواز بھی اپنا سامان باندھ چکی ہیں اور جلد ہی ان کی روانگی کی تمام رکاوٹیں دور ہوجائیں گی ۔

وزیراعظم عمران خان اپنی سیاسی جدوجہد کے ابتدائی تیرہ سال اس بات پر ڈٹے رہے کہ وہ ” قابل انتخاب “ لوگوں کی جگہ نئی نسل کو لیکر آئیں گے لیکن 2013 میں انہوں نے ہتھیار پھینک دیئے اور پھر پی ٹی آئی کیلئے سالہا سال تک کام کرنے والے ورکروں کو ” قابل انتخاب “ لوگوں کے ذریعے پہلا جھٹکا دیا گیا اس کے بعد 2018 کے الیکشن میں ” قابل انتخاب “ پی ٹی آئی میں ٹڈی دل کی طرح وارد ہوئے اور پی ٹی آئی کے ورکروں کی سرسبز فصل کو بنجر زمین میں بدل کررکھ دیا ۔ 2018ءکے الیکشن میں عمران خان ” روکھے سوکھے “ ہوکر وزیراعظم کے منصب تک تو پہنچ گئے اور پھر انہوں نے بے رحم احتساب کا نعرہ شب و روز لگایا ۔

اگرچہ نیب نے اپوزیشن کے اہم ترین لیڈروں کی گرفتاریاں کرکے یہ ثابت کیا کہ وہ احتساب کے معاملے میں صرف ایک آنکھ سے دیکھتی ہے اور دوسری آنکھ سے اسے ہلکا سا دکھائی دیا تو انہوں نے علیم خان کو دھر لیا لیکن اس کے بعد نیب نے ایک آنکھ پر پٹی باندھ کر احتساب کیا اور یہ آنکھ صرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لئے استعمال ہوئی ۔ ابتدائی طورپر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ نیب وزیراعظم سیکرٹریٹ کے حکم پر قوم کا لوٹا گیا پائی پائی وصول کرنے کا پختہ ارادہ کرچکی ہے لیکن اب تک ہونیوالے احتساب نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نیب بھی پاکستان کے دیگر قوانین کی طرح ایک ایسا ادارہ ہے جو عام اور لاوارث آدمی پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے اور طاقتور کے سامنے خود ٹوٹ جاتا ہے ۔

ابھی حال ہی میں ایک اخباری تراشے کو لیکر نیب نے سابق وزیرداخلہ چوہدری احسن اقبال کیخلاف 6 ارب روپے کی کرپشن کا آغاز کیا تھا اور پھر چوہدری احسن اقبال کو گرفتار بھی کرلیاگیا ہے اور اب معلوم ہوا ہے کہ اس سپورٹس سٹی پراجیکٹ میں ابھی تک 2 ارب 90 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں اور یہ کہ یہ پراجیکٹ بھارت کی باﺅنڈری لائن سے تقریباً گیارہ کلو میٹر دور ہے اور نیب کا کہنا تھا کہ یہ آٹھ کلو میٹر دور ہے اس لئے یہ سیکیورٹی رسک ہے ۔

اس کیس کی تفتیش اور عدالتی کارروائی کے بعد چوہدری احسن اقبال سیاسی ہیرو بن کر ابھر رہے ہیں اور وہ اپنے دعوﺅں کی سچائی پر نیب اور حکومت پر گرج برس بھی رہے ہیں جو کہ ان کا حق بھی ہے ۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی کا اعتماد بتاتا ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور نیب والے کچھ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں اور نیب نے اب تفتیش کا رخ ان کے بیٹے عبداللہ عباسی کی طرف موڑدیا ہے مزید برآں نیب کے قوانین بتاتے ہیں کہ گرفتارملزمان کیخلاف جب ریفرنس دائر ہوجائے تو ان کی ضمانت نہیںہوسکتی لیکن میاں نواز شریف کو سزا یافتہ ہونے کے باوجود سزا معطل کرکے لندن بھیج دیا گیا اور اضافی پیکج کے طور پر میاں شہباز شریف بھی چلے گئے ۔

میاں نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد بھی ضمانت پر رہائی پاچکے ہیں اور نیب انہیں قومی چور اور ڈاکو ثابت نہیں کرسکتا اس کے علاوہ رانا ثناءاللہ کیس بھی کسی المیہ سے کم نہیںہے نیب کی باتیں تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن جس طریقے سے رانا ثناءاللہ کو منشیات فروش بنانے کی کوشش کی گئی عوام نے اس طریقہ کار کو ابھی تک قبول نہیں کیا اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ رانا ثناءاللہ پراعتماد نظر آتے ہیں اور شہریار آفریدی پریشان دکھائی دیتے ہیں ۔

اس کیس نے رانا ثناءاللہ کو بھی سیاسی ہیرو بنا کر رکھ دیا ہے ۔اب وہ دن دور نہیں ہے کہ جب شاہد خاقان عباسی اور خواجہ سعد رفیق سمیت دیگر مسلم لیگی اسیران آزاد فضاﺅں میں سانس لے رہے ہونگے ان سارے حالات کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم کی یہ گردان کے میں چوروں کونہیں چھوڑوں گا کیا معنی رکھتی ہے ؟ نیب کا دو چہرے رکھنے والا قانون ایک طرف یہ دکھاتا ہے کہ دل کا مریض ہتھکڑیوں سمیت مردہ حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا.

دوسرا رخ بھی قوم نے دیکھ لیا ہے کہ ایک خاندان کے سامنے نیب ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا، لہذا وزیراعظم اپنے عزائم فی الحال دل میں رکھیں کیونکہ ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں طاقتور سے لڑنے کا دم خم ہی نہیں ہے اور یہ ادارے ہمیشہ وزیراعظموں کو کمزور کرنے کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے اس سے سیاستدان بدنام نہیں ہوتے بلکہ ان کا قدم کاٹھ اور بڑھ جاتا ہے ۔

درحقیقت ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیرو بنانے والی فیکٹریاں ہیں سیاسی تحریکوں میں تھانیداروں کو رشوت دیکر جعلی گرفتاریاں دکھا کر قیادت کا قرب حاصل کرنا بھی اس فن میں شامل ہے نیب نے آج تک جتنے بھی بااثر لوگوں پر ہاتھ ڈالا ہے انہیں پہلے سے بڑا ہیرو بنا کر چھوڑا ہے بالکل اسی طرح جیسے جرائم پیشہ افراد جیل جا کر بڑے نیٹ ورک کا حصہ بن کر باہر آتے ہیں ایسے ہی ہمارے تمام ادارے گرفتار ملزمان کچھ بھی اگلوا نہیں پاتے اور قانون کے ذریعے جان بوجھ کر جھول دیکر انہیں حق کا علمبردار بنا دیا جاتا ہے لہذا ایسے ” ہیرو“ بنانے والی فیکٹریوں کو جلا دینا ہی بہتر ہے وگرنہ ہر مافیا قوم کا ہیرو بن کر رہے گا ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.