آٹھواں کتاب میلہ
شمشاد مانگٹ
وفاقی دارالحکومت میں آٹھواں کتاب میلہ بھرپور طریقے سے اختتام پذیر ہوا ہے۔کتاب میلے میں عوام کی دلچسپی سے معلوم ہوتا ہے کہ کتابوں پر اب بھی لوگوں کی بہت بڑی تعداد انحصار کرتی ہے۔اگر چہ گوگل نے تمام لائبریریوں کی کتب اور لٹریچر موبائل میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے لیکن جو مزا کتاب ہاتھ میں پکڑ کر پڑھنے میں ہے وہ انٹرنیٹ کے ذریعے نہیں ہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن عرفان صدیقی نے گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس میلے کی کامیابی اور ادبی ورثہ ڈویژن کی کامرانی بارے اعداد وشمار پیش کئے۔کتاب میلے میں عوام کی دلچسپی سے معلوم ہوتا تھا کہ وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے اس شعبے میں اپنی ٹیم کے ساتھ کافی کام کیا ہے۔
میڈیا کو پیش کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق کتاب میلے میں 3لاکھ39ہزار703 لوگوں نے شرکت کی اور سکیننگ مشین کے ذریعے سیکورٹی کو یقینی بنانے کیلئے48880 بیگ اور پرس اسکین کئے گئے۔کتاب میلے میں کل133بک سٹال لگائے گئے تھے اور ان اسٹالز سے2کروڑ روپے مالیت کی کتب رعایتی نرخوں پر فروخت ہوئیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عوام کے اندر کتاب کی محبت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن نے صرف ایک سال کے دوران اپنے مختلف اسٹالز سے33کروڑ54لاکھ8807 روپے کی کتب فروخت کرکے مقبولیت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔اسی طرح ادبی ورثہ ڈویژن نے ملک بھر سے فنِ خطاطی کو فروغ دینے کیلئے بھی نمائشوں کے اہتمام کی منظوری دیدی ہے۔
مزید برآں ادبی ڈویژن نے دو بڑے کارنامے سرانجام دئیے ہیں،اول یہ کہ قائد اعظم کے مزار کا فانوس جو کہ اپنی”طبعی عمر“ پوری کر چکا تھا اس کو دوبارہ بنوایا گیا ہے لیکن یہ طلائی فانوس چائنہ کی حکومت نے پاک چین دوستی کے تحت22کروڑ روپے کی لاگت سے از خود بنا کر دیا ہے۔دوسرا کارنامہ یہ سرانجام دیا گیا ہے کہ مزارِ قائد کے احاطے میں پاکستان پارک کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔اس منصوبے کے تحت پارک میں پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقائی ثقافت کے رنگ اجاگر کئے جائیں گے۔
ادبی ورثہ ڈویژن نے عالمی معیار کی کتب کو اردو ترجمے کے ساتھ پیش کرنے کیلئے دارالترجمہ کا قیام بھی کرد یاہے۔اسی طرح نیشنل لائبریری میں نابینا بچوں کی سہولت کیلئے20 کمپیوٹرز کی تنصیب بھی کی گئی ہے۔
اردو کی ترقی کیلئے ادبی ورثہ ڈویژن ساؤنڈ ڈکشنری بھی متعارف کروا رہا ہے اس ڈکشنری کی مدد سے عوام کو اردو کے صحیح الفاظ کی ادائیگی میں مدد مل سکے گی اور اعراب لگانے میں بھی آسانی رہے گی۔اس کے علاوہ 5سال سے بند فیض آڈیٹورم کو بھی نئے سرے سے تیار کردیاگیا ہے۔
ادبی ورثہ ڈویژن نے ایک بڑا کام یہ بھی کیا ہے کہ دور دراز علاقوں میں بیٹھے ہوئے قلم کے مزدوروں کے ماہانہ وظیفہ کو 7000روپے سے بڑھا کر13000 روپے ماہانہ کردیا ہے اور یہ وظیفہ وصول کرنے والوں کی تعداد پہلے500تھی جسے اب1000کردیاگیا ہے۔
مشیر وزیراعظم عرفان صدیقی کی زیرقیادت ادبی ورثہ ڈویژن نے اسلام آباد میں تقریباً چار ایکڑ اراضی پر عظیم قومی میوزیم کی تعمیر کیلئے ڈیزائن کی تیاری شروع کردی ہے۔سب سے حیرت انگیز یہ کام ہوا ہے کہ عرفان صدیقی اور انکی ٹیم کے ممبران نے اپنی طرف سے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو ادبی ڈویژن کیلئے50کروڑ روپے کی ڈیمانڈ لکھ کر بھیجی تھی، میاں نوازشریف نے اس ڈیمانڈ میں کمی بیشی کئے بغیر ہی اسکی منظوری دیدی۔
وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی قدرے پچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ ہماری ٹیم نے مشاورت کے بعد یہ ڈیمانڈ اپنی طرف سے بہت زیادہ لکھ کر بھیجی تھی تاکہ سابق وزیراعظم کم از کم آدھی تو منظور کرلیں لیکن وہ پہلے ہی مائل بہ کرم تھے اور انہوں نے من وعن منظوری دیدی۔عرفان صدیقی یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر وہ ایک ارب روپے کی ڈیمانڈ لکھ کر بھیجتے تو میاں نوازشریف اسکی بھی منظوری دے دیتے۔
حقیقت یہ ہے کہ ادبی ورثہ ڈویژن نے جو کام کر دکھایا ہے اس کیلئے سالانہ ایک ارب روپے مختص ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ جس طریقے سے کتاب میلوں کی اہمیت پورے ملک میں اجاگر کرنے اور قلم کاروں کو”محفوظ“ بنانے کے منصوبے بنائے گئے ہیں اس کیلئے 50کروڑ روپے اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہوں گے۔
ادبی ورثہ ڈویژن نے حادثاتی موت کا شکار ہونے والے ادیبوں کی مالی امداد 2لاکھ روپے سے بڑھا کر4لاکھ روپے کردی ہے اور طبعی موت کا شکار ہونے والے ادیبوں کی امداد ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر2لاکھ روپے کردی گئی ہے۔مزید برآں صحافیوں کو کتابوں کی خریداری پر55فیصد رعایت دینے کا بھی اعلان کردیاگیا ہے۔
وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے کتاب میلہ کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اپنی5سالہ کارکردگی بھی پیش کردی ہے اور پیش کئے گئے اعداد وشمار سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنیوالی حکومت میں جو بھی ادبی ورثہ ڈویژن کا سرپرست ہوگا اسے عرفان صدیقی کے کام کو مات دینے کیلئے بہت محنت کرنا پڑے گی۔کتاب میلوں میں مقابلے کا رجحان پوری قوم کیلئے نیک شگون ہے۔عرفان صدیقی کتاب کی اہمیت کو مزید بڑھانے کیلئے گشتی لائبریریاں بنانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں ۔
پریس کانفرنس کے دوران ہی راقم نے لائبریریوں کے اس نام پر ”نکتہ اعتراض“پیش کردیا تھا لیکن وزیر اعظم کے مشیر عرفان صدیقی کا کہناتھاکہ گشتی لائبریریاں کوئی برا نام نہیں ہے کیونکہ ماضی میں گشتی شفاخانہ بھی مشہور رہاہے ۔جناب عرفان صدیقی کے اس ”لائبریری تصور“پر میں کافی دیر سوچتا رہا کہ جن ادیبوں کی کتب ان لائبریریوں میں رکھی جائیں گی انکے دل اور روح پر کیا گزرے گی ؟۔بہرحال آئیڈیا یہ بھی اچھاہے ۔