درست سمت کی ضرورت

0

محمد مبشر انوار

پاکستان،ایک خالصتاً سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں تو آ گیا اور قریباً 23سال تک اس نو زائیدہ ملک کے عوام نے،اندرونی اختلافات کے باوجود،اس کی ترقی و خوشحالی میں اپنا تن من دھن اور مہارت دل و جان سے نثار کی۔ وطن عزیز کی ترقی میں اپنا کردار بخوبی نبھاتے رہے تو دوسری طرف اس پر مسلط کردہ آمریت کے خلاف بھی بھرپور احتجاج اور جدوجہد کرتے رہے۔

یہی وہ جذبہ تھا جس کی بدولت اس وقت کی عالمی رائے عامہ کے ادارے،پاکستان کو مستقبل کی ایک بھرپور طاقت کے طور پر دیکھ رہے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ پاکستانی قوم نہ صرف ذہین و فطین بلکہ سخت محنت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے کی تمام تر صلاحیت رکھتی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب پاکستان اقوام عالم میں فخر کے ساتھ ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر پہچانا جائے گا۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قوم کا مورال نہ صرف نیچے جاتا بلکہ اس کی ترقی کی رفتار بھی معکوس کا سفراختیار کرتی نظر آتی ہے لیکن ہوا اس کے برعکس کہ یہ قوم مزید قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آئی اور راستے کی تمام مشکلات کا نہ صرف خندہ پیشانی سے سامنا کیا بلکہ ان نامساعد حالات میں بھی بے مثال پیشرفت کی۔

بالخصوص اپنے دفاع میں اس قوم نے ہر قربانی دے کر ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بنایا اور دشمنوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ اس قوم کو جتنا دباؤ گے،یہ اتنا ابھر کر سامنے آئے گی۔ اس صورتحال سے گھبرا کر،عالمی سامراجی طاقتوں نے اس کے خلاف اپنا پلان بدل دیا اور درپردہ یہاں ایسی حکومتوں کو تقویت دی،جو اس قوم کو منتشر کرنے میں اغیار کے دست و بازو بن گئے۔

دوام اقتدار،ہوس اقتدار کی خاطر،دیمک کی طرح اس قوم کو کمزور کرنے کی خاطر،مسالک و گروہوں اور لسانیت کے مکروہ جالوں میں یوں جکڑ دیا گیا کہ اس کا خمیازہ ہو آج تک بھگت رہے ہیں۔رہی سہی کسر 1985کے غیر جماعتی انتخابات نے پوری کر دی،جس میں ایک طرف محترمہ بے نظیر نے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے،موقع پرستوں کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیا.

  وہی موقع پرست آج پاکستان کی سیاست پر ہزارپا کی طرح قابض ہیں او رکسی صورت معاملات کو بہتری کی طرف لے جانے کے لئے تیار نہیں۔ اس کی سادہ سی وجہ ایک طرف ان کے ذاتی مفادات ہیں تو دوسری طرف ان کی محدود سوچ اور عالمی صورتحال سے بے خبری ہے،جو انہیں کسی بھی طور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا ادراک نہیں ہونے دیتی۔

اس پس منظر میں ملک پر قابض بونے سیاستدان،اپنے ذاتی مفادات کی خاطر،وہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں کہا جاتا ہے اور یوں اقتدار پر رہتے ہوئے،اختیار کسی اور کا چلتا رہتا ہے۔ نظام کی تبدیلی کی باتیں کرنے والے صرف چہرے بدلنے پر ہی قانع ہو جاتے ہیں اور وہ چہرہ بھی بالعموم چیف ایگزیکٹو کا چہرہ بدلتا ہے.

کابینہ اور اراکین وہی پرانے ہوتے ہیں،یعنی پرانی شراب کو نئی بوتل میں پیش کر کے عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے،فریب کاری کی جاتی ہے،سٹیٹس کو،جوں کا توں چلتا رہتا ہے۔

اس پس منظر میں عمران خان بائیس سالہ کٹھن جدوجہد کے آخر میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے اور بعینہ وہی غلطی دہرائی جو محترمہ بے نظیر نے اٹھاسی میں،گیارہ سالہ جدوجہد کے بعد دہرائی تھی کہ کارکنان کز ظلم و ستم کی چکی سے بچانے کے لئے،اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے پر مجبور ہو گئی کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس واضح اکثریت موجود نہ تھی۔

اقتدار تو محترمہ کو بھی مل گیا تھا مگر اختیار اس وقت بھی کہیں اور تھا اور اختیار آج بھی کہیں اور ہے،کئی معاملات میں تو وزیراعظم کو بھی علم نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے اور جب واقعہ ہو جائے تب کہیں کڑیاں ملاکر پتہ چلتا ہے کہ کیا گذر چکی ہے۔

عمران خان اپنے تمام تر دعوؤں اور خلوص نیت (بالفرض ظاہری حالات پر ہی قیاس کریں)کے باوجودوہ جوہری تبدیلی لانے میں ابھی تک ناکام نظر آتے ہیں،جس کے لئے انہیں منتخب کیا گیا یا انہیں اقتدار دیا گیا۔

اس سب کے باوجود،نرم گوشہ رکھتے ہوئے بھی اگر دیکھا جائے،تو چند اقدام ایسے ہیں،جو کسی طور عمران کی شخصیت اور دعوؤں سے میل نہیں کھاتے اور صاف نظر آتا ہے کہ عمران بھی،فقط اقتدار بچانے کی خاطر،سمجھوتوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

ان چند اقدامات میں سر فہرست میاں برادران کو گرفتاریاں،پیسے واپس نکلوانے سے مشروط رہائی (جو میری نظر میں کل بھی غیر قانونی تھا اور آج بھی غیر قانونی ہے) کہ اگر جرم کیا ہے تو پھر اس کی سزا نہ دینا بھی جرم کے مترادف ہے.

پلی بارگین کا قانون (جو مشرف نے متعارف کروایاتھا،اگر انصاف کی راہ میں حائل ہے تو اسے تبدیل کیوں نہیں کیا جاتا)،اسی طرح آصف زرداری کے خلاف اتنا شوروغوغاکرنے کی ضرورت کیا تھی اگر زرداری اور اس کے حواریوں کو رہا کرنا ہی مقصود تھا؟یہ تو سراسر گناہ بے لذت والی بات ہے اس سے تو کہیں بہتر تھا کہ اقتدار لیا ہی نہ جاتا۔

بات کہیں سے کہیں جا نکلی،مدعا یہ تھا کہ اس آج ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے،جو ہماری سمت کو درست کر سکے؟کیا قیادت کی ضرورت ہے یا قوانین کی،قوانین پر عمل درآمد کی ضرورت ہے یا قومی مفاد کی ترجیح بیدا رکرنے کی،منقسم ہجوم کو ایک لڑی میں پرونے کی یا اس تقسیم کرروک کر باہمی اتفاق کی؟

قارئین! بات بڑی واضح اور سادہ ہے کہ ہمیں ان سب کی اشد ضرورت ہے،ہمیں ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو خم ٹھونک کر میدان میں کھڑی ہو،کسی قسم کی بلیک میلنگ یا دباؤ کا شکار نہ ہو،جو ملکی مفاد پر اپنے اقتدار کو قربان کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو.

ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اقتدار کے لئے عوام کی طاقت پر بھروسہ کرے نہ کہ کسی چور راستے سے اقتدار حاصل کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرے۔ قوانین موجود ہونے کی صورت میں،جو واقعی موجود ہیں،ان پر کماحقہ عمل درآمد کروانے کی اہلیت و حوصلہ رکھتی ہو،عوام میں قومی مفادات کی ترجیحات اجاگر کرنے،بیدار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو.

جس کے لئے ضروری ہے کہ قیادت اور اس کی ٹیم اس کا آغاز اپنی ذات سے کرے نہ کہ ساری قربانیاں صرف عوام سے مانگتی پھرے۔ ایسے قوانین نہ بنائے،جس سے یہ تاثر ابھرتا ہو کہ یہ کسی فرد واحد کو سہولت دینے کے لئے بنایا جا رہا ہے،وہ فرد واحد خواہ سویلین ہو یا مسلح افواج سے.

ویسے کس قدر افسوسناک بات ہے کہ عدالت عظمی کی ہدایت پر آرمی ایکٹ میں تبدیلی کا قانون،اکثریت نہ ہونے کے باوجود پارلیمان میں موجود تمام ممبران کی حمایت کا ووٹ حاصل کر جائے مگر عوامی مفاد میں عوامی نمائندے کسی صورت اتفاق رائے پیدا نہ کر سکیں،ایسے قوانین کا کیا فائدہ؟

اہم ترین بات،بائیس کروڑ کے اس ملک میں،سب سے زیادہ ذمہ داری ان پر ہے،جو اس ملک کو چلارہے ہیں،کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی سمت کا درست تعین کر لیں؟یقین کریں اگر صرف وہ اسٹیبلشمنٹ(فوجی و سول)اپنی درست سمت کا تعین کر لے،اپنی ترجیحات کا تعین کر لے،تو یہ ممکن ہی نہیں کہ نہ صرف یہ ملک بلکہ یہ منتشر ہجوم ایک قوم میں تبدیل نہ ہوجائے.

آزمائش شرط ہے کہ یہ وہی قوم ہے جس نے انتہائی نامساعد حالات میں،نوزائیدہ ملک کو نہ صرف چلا کردکھایا تھا بلکہ اسے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا تھا۔ ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو پاکستانیوں کو اس شعور کا احساس دلا سکے کہ ہم سب کی شناخت یہ ملک ہے،اس کی ترقی ہماری ترقی ہے،ملکی وسائل کو لوٹ کر انفرادی خوشحالی تو ممکن ہے مگر اجنماعی خوشحالی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

آج ضرورت پھر اس امر کی ہے کہ اس ملک کو چلانے والے اپنی درست سمت کا تعین کر لیں،اپنی وفاداریوں کو ریاست کے ساتھ مشروط کر لیں،دہری شہریت یا بعد از ریٹائرمنٹ دیار غیر میں مقیم ہونا چھوڑ دیں،پاکستان پھر اقوام عالم میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہو جائے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.