ہوا خوری
شمشاد مانگٹ
شگوفوں سے بھرپور محفل میں موجود بٹ صاحب نے جب دوسری بار اپنے ازار بند کی پوزیشن تبدیل کی تو اہل محفل جان گئے کہ بٹ صاحب کو یا تو بھوک لگی ہوئی ہے اور یا پھر گیس کے اخراج کا راستہ ہموار کیا جارہا ہے ، بٹ صاحب نے تیسری بار ازار بند کو تکلیف دینے کی بجائے دونوں ہاتھوں کو زمین پر لگا کر اپنا بوجھ اٹھایا اور حسب ضرورت پھرتی دکھاتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف لپکے۔
دروازہ کھول کر بٹ صاحب اپنا وجود مکمل طور پر کھلی فضا میں لے جاچکے تھے اور دروازہ بند ہونے میں ابھی ایک چوتھائی وقفہ تھا کہ شرکاءمحفل نے ”بادشکم“ کے آزاد ہونے کی بلند آواز سنی تو محفل میں ایک زور دار قہقہ بلند ہوا ۔بٹ صاحب ”گیس“ کو آزاد کرنے کے بعد دوبارہ محفل میں نمودار ہوئے تو راجہ صاحب سے رہا نہ گیا اور کھسیانی ہنسی کے ساتھ پوچھ ہی لیا کہ بٹ صاحب کہاں گئے تھے ؟
بٹ صاحب نے پراعتماد لہجے کے ساتھ جواب دیا کہ ذرا ہوا خوری کرنے گیا تھا اس جواب پر محفل میں دوبارہ قہقہ بلند ہوا اور پروفیسر صاحب نے بٹ صاحب پر طنزیہ حملہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے میٹرک سائنس کے ساتھ کی ہوتی تو آپ کو معلوم ہوتا کہ ہوا خوری اور گیسوں کے اخراج میں کیا فرق ہے ؟ہوا خوری جرم نہیں ہے بلکہ شخصی اور شہری آزادیوں کا بڑا حصہ ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہوا خوری صاف جگہ پر کی جائے نہ کہ گندگی کے ڈھیر پر.
گندی گیسوں کے اخراج کے پاس کھڑے ہو کر کی جائے ۔پاکستان کے زیادہ تر شہر ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود شہری ہوا خوری کے لئے لازمی صبح و شام نکلتے ہیں، حیرت تو یہ ہے کہ کوئی بھی شہری یہ نہیں کہتا کہ وہ گندی ہوا خوری کرنے جارہا ہے یا کرکے آرہا ہے ۔
پاکستان میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ شہری کسی پرفضاءمقام پر چلے جائیں تو ان کے پھیپھڑے ساتھ چھوڑتے ہوئے اور دل بند ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح موجودہ دور کے لوگ اچانک خالص دیسی گھی کھا لیں تو ان کے پورے جسم سے دھواں نکلنے لگتا ہے لیکن وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف کانوں سے دھواں نکل رہا ہے ۔
بہرحال ہماری قومی سیاست میں آجکل ہوا خوری کو ایسے پیش کیا جارہا ہے جیسے یہ کوئی ناپسندیدہ عمل ہے ، سابق وزیراعظم نوازشریف کی ہوا خوری کی کوشش کو پی ٹی آئی کے کرما فرما ایسے پیش کررہے ہیں جیسے وہ حرام خوری کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔
میاں نوازشریف بیمار تھے اور حکومتی ڈاکٹروں اور وزیروں مشیروں نے انکے علاج کیلئے بیرون ملک بندوبست کرنے کی اجازت دی۔جب میاں نوازشریف پلیٹ لیٹس کی کمی کا شکار ہوکر بیرون ملک جارہے تھے تو حکومت کی طرف سے عدالت میں یا ماورائے عدالت ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی تھی کہ وہ ہواخوری نہیں کریں گے۔
البتہ اس دلیل میں زیادہ وزن ہے کہ مریض خوش خوراکی کا شکار ہو یا پھر اسکے خون کے خلیوں میں گڑ بڑ ہو اسے ہوا خوری کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔میاں نوازشریف اپنے خاندان کے ہمراہ لندن میں ہوا خوری کرتے پائے گئے تو پاکستان میں حکومت اوراپوزیشن کو شکر کرنا چاہئے تھا کہ مریض تیزی سے زندگی کی طرف پلٹ رہا ہے۔
لیکن ہمارے ہاں معاملہ ہی الٹ ہے حکومت کے وزیر اور ترجمان سراپا احتجاج ہیں کہ وہ ہواخوری کیلئے باہر کیوں نکلے؟ جبکہ انہیں بستر مرگ پر پڑا نظر آنا چاہئے تھا حکومتی ترجمانوں کے بیانات سے لگتا ہے کہ میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف 50روپے کے سٹامپ پیپر پر یہ لکھ کر گئے تھے کہ وہ لندن جاکر بیمار ہی رہیں گے اور اگر انکی کوئی تصویر جاری ہوئی تو وہ یہی ثابت کرے گی کہ میاں نوازشریف پہلے سے بھی زیادہ علیل ہیں۔
دوسری طرف میاں نوازشریف کے ترجمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے قائدکی صحت بہتر ہونے پر سجدہ شکر ادا کرنے کی بجائے شرمندہ شرمندہ بیانات جاری کر رہے ہیں کہ میاں نوازشریف خاندان کے ہمراہ ہواخوری کیلئے گئے تھے جبکہ اپوزیشن کو اسی دلیری کا مظاہرہ کرنا چاہئے جو دلیری انہوں نے میاں نوازشریف کی بیماری کے وقت دکھائی دی تھی اور حکومت کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ خدانخواستہ اگر میاں نوازشریف کی زندگی کو کچھ ہوگیا تو وہ بھٹو کی طرح ہمیشہ کیلئے زندہ ہوجائیں گے۔
میاں نوازشریف اگر چاہیں تو میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر گالف کھیل سکتے ہیں اور پانچ پانچ اوور کا میچ بھی کھیل سکتے ہیں کیونکہ صحت کی بحالی کیلئے یہ بہت ضروری مشقیں ہیں لہٰذا ہواخوری کوئی جرم نہیں ہے مگر اس کیلئے ضروری ہے جب بھی ہواخوری کو دل کرے ڈاکٹر کی ہدایت ساتھ ضرور لف کردیا کریں۔ڈاکٹر اگر جیل سے آزاد فضاءمیں لیجا سکتے ہیں تو ہواخوری کیوں نہیں کراسکتے؟