مصالحوں والی فلم فلاپ
شہزاد فاروقی
چیف جسٹس آف پاکستان کےساتھ وزیراعظم پاکستان کی ملاقات کے بعد غیر یقینی کا خاتمہ ہونا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے چہ میگوئیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
سیاسی محاذ پرخبر گرم یہ ہے کہ نئے این آر او کے تحت معاملات طے پا گئے ہیں اور سازشی تھیوری سٹاک ایکسچینج میں جس تھیوری کے شیئرز بہت تیزی سے بک رہے ہیں اس کے تحت میاں شہباز شریف اگلے وزیراعظم ہو سکتے ہیں اور فی الحال میاں نواز شریف اور ان کے قریبی لوگوں کے لیے نئے سیٹ اپ میں گنجائش بنتی نظر نہیں آ رہی۔ اس این آر او کے طے پانے میں حال ہی میں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اگلی ٹرم کے لیے ”بھی“ سینیٹر منتخب ہونے والی ایک شخصیت کے ساتھ ساتھ طاقتور حلقوں میں موجود ایک ”رشتہ دار شخصیت“ کا بنیادی اور اہم کردار ہے۔ تاہم اس تھیوری میں مسلم لیگ (ن) کو اگلے انتخابات میں حتمی اکثریت ملنے کے امکانات کم ہیں اور قانونی الجھنیں جو موجود ہیں وہ سلجھتی نظر نہیں آ رہیں اور نہ ہی ختم ہوں گی بلکہ ان کے لیے قانونی راستہ طویل کرنے اور فاسٹ ٹریک عمل کو آہستہ کرنے کے طریقے نکالے جا رہے ہیں دیگر حوالوں سے اگر دیکھا جائے تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج اگر ڈاکٹر شیر افگن نیازی زندہ ہوتے تو غالباً آرٹیکل 190 کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 209 کو ملا کر پڑھنے کی ہدایت کرتے نظر آتے لیکن یہ محض میرا مفروضہ ہے خدا جانے وہ زندہ ہوتے تو کون سا آرٹیکل کسی دوسرے آرٹیکل کے ساتھ ملا رہے ہوتے۔
ویسے تو حاجی سیف اللہ خان، ڈاکٹر شیر افگن نیازی، عزیز اے منشی اور شریف الدین پیر زادہ جیسے نابالغ موجود نہیں ہیں اور حاجی سیف اللہ خان کو باقی تین اصحاب سے ملانا بھی نا انصافی ہی قرار پائے گی لیکن ہماری تاریخ میں ہر دور کے جابر حکمران کو اپنی مرضی کے مطابق کلمہ حق کہنے والے مل ہی جایا کرتے ہیں۔
تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مایوسی اور قیادت کا موجودہ واویلا اوپر بیان کی گئی تھیوری کے سٹاک کے ریٹ بڑھانے میں مدد کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں ایسے رجائیت پسند عناصر موجود ہیں جن کے مطابق میاں نواز شریف کی گزشتہ روز احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کے بعد سے وہ قائل نہیں کہ ایسا کچھ ہونے جا رہا ہے، کیونکہ عدلیہ پر حملہ مذاکرات کی ناکامی کا حال بیان کرتا ہے، تمام اداروں کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کی خواہش اب بے سود ہے لہٰذا معاملات میں اب مسلم لیگ (ن) کا زیادہ زور مرکز اور پنجاب میں نگران حکومتوں کے حوالے سے بہتر سودا بازی پر مرکوز ہو چکا ہے۔
آج افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے صاف طور پر بتایا گیا کہ فوج کا کسی این آر او سے کچھ لینا دینا نہیں جبکہ میاں نوازشریف چیف جسٹس آف پاکستان کو اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ ترین حلقے کی جانب سے شہر اقتدار کے تین بڑے صحافیوں کو گزشتہ روز ایک بڑی اور دھماکہ دار خبر کے لیے تیار کیا گیا تھا جس سے ٹی وی چینلز کے لیے سنسنی اور ڈرامہ سے بھرپور کئی گھنٹوں تک ”صلح صفائی“ کا چورن بیچا جانا مقصود تھا تاہم برا ہو ترجمان سپریم کورٹ کا جس نے وزیراعظم سے ملاقات ہونے سے پہلے تمام میڈیا کو اطلاع دے کر بارہ مصالحے والی اس فلم کو ریلیز سے پہلے ہی فلاپ کر دیا۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن گزشتہ روز کی اس ملاقات میں وزیراعظم کی جانب سے عدالتی اور قانونی اصلاحات کے حوالے سے یقین دہانی کی بات سپریم کورٹ آف پاکستان کے اعلامیہ میں بھی شامل کی گئی ہے۔ اس بات پر یقین کرنا تو میرا ذاتی معاملہ ہے لیکن عقل و فہم کے مطابق حکومت کی اس وقت جانے سے پہلے جو آخری سب سے بڑی ترجیح ترقیاتی منصوبوں کے لیے آخری بجٹ میں بھاری رقوم مختص کرنا ہے اور اگر اپریل میں حکومت کی بیان کی گئی تاریخوں پر بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو اس کی منظوری کے لیے کم و بیش 20 سے25 دن درکار ہوں گے، ایسے میں اس حکومت کے پاس بچے باقی بیس، پچیس دنوں میں ”عدالتی اصلاحات“ جیسا بھاری بھرکم پتھر اٹھانے کی استطاعت کم از کم مجھے تو نظر نہیں آتی، بالخصوص ان حالات میں کہ حکمران جماعت موجودہ اسمبلی کو 28 مئی کے آس پاس بجٹ کے فوراً بعد تحلیل کرنے کی تجویز پر بھی کام کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ اگر اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کر کے خود بخود تحلیل ہو جاتی ہے تو آئین کے مطابق اگلے انتخابات 60 دن میں جبکہ اسمبلی توڑنے کی صورت میں90 دن میں کرانے ضروری ہیں۔