جھگیوں کے خانہ بدوش افغانی واپس نہیں جانا چاہتے،منگل خان کی زبانی
فوٹو : زمینی حقائق ڈاٹ کام
اسلام آباد(محمد فیصل راجپوت)افغانستان کا خانہ بدوش خاندان 40 سال سے جھگیوں میں آباد ہیں ، یہ لوگ طرح طرح کے مسائل کا سامنا کررہے ہیں تاہم ان کی افغانستان واپس جانے کی خواہش مر چکی ہے.
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے نواحی علاقے فراش ٹاون سے ملحقہ تقریباً 2 کینال کے پلاٹ پر بنی چند جھگیوں میں ایک ہی خاندان کے 5 گھر آباد ہیں،بنیادی سہولیات موجود ہیں لیکن ان کی رہائش کا منفی پوائنٹ صرف جھگیاں ہونا ہے.
ان جھگیوں میں سولر انرجی کی پلیٹس بجلی کا نعم البدل ہیں، مال مویشیوں کےلیے خصوصی جگہ سلیقے سے بنائی گئی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ ان جھگیوں میں جانوروں کیلئے بہتر انتظام ہے، بچے اسی طرح گندگی میں رہتے ہیں جیسے جھگیوں کی زندگی ہوتی ہے.
تقریباً 35 سال کے منگل خان نے زمینی حقائق ڈاٹ کام سے گفتگو میں بتایا کہ میری پیدائش پاکستان کی ہے، ہم پشتو ضرور بولتے ہیں، افغانستان کی باتیں بھی کرتے ہیں لیکن ہم لوگ واپس نہیں جانا چاہتے ہیں.
منگل خان نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ مجھے گھر والے بتاتے ہیں کہ افغانستان اس طرف ہے لیکن میں کبھی افغانستان نہیں گیا ہوں، اس نے بتایا یہ جھگیاں میرے سسرالیوں کی ہیں ہم سب افغانی ہیں، میرا اپنا خاندان پنجاب میں ہے.
جب منگل خان سے پوچھا گیا کہ آپ نے فراش ٹاون فیز تھری کی زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے تو حاضر دماغ اور ایریا سے آگاہی رکھنے والے اس شخص نے جھگیوں کے سامنے سڑک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا فیز تھری سڑک سے اس طرف ہے.
ہم لوگ ایک مقامی خاندان کی زمین پر جھگیاں لگا کر آباد ہیں اور ان کی زمینیں آباد کرنے کا ٹھیکہ ہمارے پاس ہے اسی لئے زمینوں کے کچھ حصے پر جھگیاں لگا رکھی ہیں، اس لئے سی ڈی اے والے ہمیں تنگ نہیں کرتے ہیں.
سچ یہ ہے اسلام آباد کا ترقیاتی ادارہ فراش ٹاون فیز تھری پر قبضہ کرنے والوں کو بھی نہیں پوچھ رہا، اس حوالے سے مقامی لوگوں نے جھگیوں کے پیچھے النفیس اسپتال کے ارد گرد بھی کہی جگہوں کی نشاندہی کی جہاں قبضے ہو رہے ہیں لیکن متعلقہ حکام اور ادارہ خاموش ہے.
منگل خان نے شناختی کارڈ کے حوالے سے بتایا کہ ہم بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے بھی پاکستانی شناختی کارڈز بن جائیں کیونکہ ابھی تک ہم افغان مہاجر کارڈز کے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن ہماری تو دو نسلیں جوان ہو چکیں، ان میں سے بیشتر افغانستان کبھی گئے بھی نہیں ہیں.
اس حوالے سے جب ایک سی ڈی اے کے ایک متعلقہ افسر سے بات کی گئی تو انھوں نے نام نہ لکھنے کی شرط پر بتایا کہ ہمارے ہاں عملاً کوئی پالیسی نہیں ہے، چیئرمین کی تقرری سیاسی ہوتی ہے جن کواترنے کاخطرہ ہو وہ ایسے کاموں میں دلچسبی لینے کی بجائے نوکری بچاتے ہیں.
انھوں نے جی سیون فور سمیت کئی اہم سیکٹرز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ یہاں سرکاری زمینوں پر ایسے ہی پہلے جھگیاں بنیں، پھر پکی تعمیرات ہو گئیں،سی ڈی اے کا متعلقہ شعبہ تب ایکشن لینے پہنچتا ہےجب قابضین حق ملکیت مانگنے لگتے ہیں.
زمینی حقائق ڈاٹ کام کی طرف سے جب منگل خان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کی جھگیوں میں کتنے لوگ ہیں تو ان کا کہنا تھا ہم پانچ رشتہ دار خاندان ہیں محنت مزدوری کر کے اپنے خاندانوں کو پالتے ہیں.
اسی طرح فراش ٹاون فیز تھری پر بھی جھگیوں کی ایک بستی آباد ہے جن کی تعداد دن بند بڑھتی جارہی ہے، ان جھگیوں میں افغانی اور پنجاب سے آئے خانہ بدوش خاندان آباد ہیں لیکن ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں، مقامی لوگ الزام لگاتے ہیں جھگیوں والے حکام کو مبینہ طور پر بھتہ دیتے ہیں.