ایران کو دھمکیاں دینے والا امریکہ غیر مشروط مزاکرات پر آگیا
فوٹو :فائل
اسلام آباد(ویب ڈیسک) ایران کے خلاف جارحانہ رویہ اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے والا امریکہ ایران کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کرنے پر آگیا، سنجیدہ مزاکرات کی پیشکش کر دی ۔
یہ پیشکش امریکی سفیر کیلی کرافٹ کی جانب سے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کو لکھے گئے خط میں کی گئی ہے، خط میں کہا گیا ہے کہ امریکا، ایران کے ساتھ غیرمشروط سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار ہے.
خط میں کہا گیا ہے پیشکش کا مقصد عالمی امن اور سیکیورٹی کو درپیش خطرہ کو روکنا ہےاور اس دوران ایرانی حکومت مزید جارحیت نہ کرے۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکا کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا دفاع کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ سلیمانی کا قتل امریکا نے اپنے دفاع میں کیا۔
خط میں مزید کہا گیا کہ امریکا خطے میں اپنی فوج اور مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 51 کے مطابق کسی بھی ملک پر اپنے دفاع میں کوئی بھی کارروائی کرتے ہوئے یہ لازم ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی 15رکنی سیکیورٹی کونسل میں فوری طور پر رپورٹ کرے۔
خط میں کہا گیا کہ سلیمانی کی موت اور 29 دسمبر کو شام اور عراق میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا گروپوں پر امریکی فضائی حملے حالیہ عرصے میں اسلامی جمہوریہ ایران اور ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج اور اس کے مفادات کو نشانہ بنانے کے ردعمل کے طور پر کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حملے کا مقصد ایران کو حملے کرنے یا اس کی سپورٹ کرنے سے روکنا اور حملے کرنے کی صلاحیت کو ختم کرنا ہے۔
دوسری جانب ایران نے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خط لکھ کر عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر کارروائی کا آرٹیکل 51 کے تحت ہی دفاع کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں ایران کا خط امریکا سے پہلے پہنچا ہے۔
اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر مجید تخت روانچی نے کہا کہ ایران کشیدگی میں اضافہ یا جنگ نہیں چاہتا، ایران نے ایک مناسب فوجی کارروائی کے دوران عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنا کر اپنے دفاعی حق کا استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن انتہائی محدود اور اس میں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں علاقے میں کسی شہری یا شہری اثاثوں کو نقصان نہیں پہنچا۔
انہوں نے امریکا کو خبردار کیا کہ وہ مزید کسی فوجی محاذ آرائی سے گریز کرے اور کہا کہ ایران عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے کسی بھی جارحیت کی صورت میں اپنے عوام کے دفاع، خود مختاری، اتحاد اور علاقائی سالمیت کی بقا کی خاطر جواب دینے کے لیے پرعزم ہے۔
یاد رہے ایران اور امریکا کے درمیان حالیہ کشیدگی میں شدت اس وقت آئی تھی جب 27 دسمبر کو بغداد کے شمال میں کرکوک میں عراقی فوجی اڈے پر 30 راکٹ فائر ہونے کے نتیجے میں ایک امریکی شہری کی ہلاکت ہوئی۔
جواب میں امریکی فورسز نے 29 دسمبر کو عسکری آپریشن (او آئی آر) کے تحت ایران کی حامی ملیشیا کتائب حزب اللہ کے عراق اور شام میں 5 ٹھکانوں پر حملہ کیا جس سے 25 جنگجو ہلاک ہوگئے تھے۔
جنگجوؤں کی ہلاکت پر ہزاروں افراد نے بغداد میں موجود امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا تاہم اس سے قبل ہی امریکی سفارتکار اور سفارتخانے کے عملے کے بیشتر ارکان کو باحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔
مظاہرین نے سفارت خانہ بند کرنے کے مطالبے اور پارلیمنٹ سے امریکی فورسز کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے پر مبنی پوسٹرز تھامے ہوئے تھے جنہوں نے نہ صرف سفارتخانے پر پتھراؤ کیا بلکہ دیواروں پر نصب سیکیورٹی کیمرے اتار کر پھینک دیے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا اور تہران کو خبردار کیا تھا کہ اسے اس کی ’بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔
جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عراق میں فضائی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی کہ ان کا ملک خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس تمام تر تنازع میں مزید کشیدگی اس وقت شدید تر ہوگئی جب امریکا کے ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ اور انتہائی اہم کمانڈر قاسم سلیمانی مارے گئے ان کے ساتھ عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی حملے میں ہلاک ہوئے۔
قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ایران نے 4 جنوری کو عراق کے دارالحکومت بغداد کے گرین زون میں امریکی فوجیوں کے ایک بیس پر راکٹ حملہ کیا گیا تھا تاہم کسی قسم کے نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔