ہنگامہ ہے کیوں برپا؟
شمشاد مانگٹ
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی آرمی ایکٹ میں ترامیم عزت و احترام کے ساتھ منظور کر لی ہیں۔ پاک وطن میں کبھی کبھی ایسا ماحول بنتا ہے جب تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی خواہشات رکھنے والی قوتیں ایک ہی پیج پر ہوتی ہیں بلکہ ایسے مواقع پر متذکرہ ”پیج“ پر جگہ کم پڑجاتی ہے اور اضافی شیٹ لگاکر قومی اظہار رائے مکمل کیا جاتا ہے۔
آرمی ایکٹ میں ترامیم تحریک انصاف پر لازم تھیں مگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کیلئے مجبوری تھی۔ آرمی ایکٹ میں ترامیم کی حمائت کرنے پر سب سے زیادہ تنقید مسلم لیگ (ن) کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سول بالادستی کا علم بلند کرنے سے لیکر خلائی مخلوق کے خلاف سرعام ”تبرہ بازی“ کے مظاہروں نے مسلم لیگ (ن) کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ جب بھی وہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے نرم گوشہ دکھائے گی تو مخالفین اسکے بیانیئے کی پوٹلیاں کھول کھول کر قوم کو دکھائیں گے۔
ویسے اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ (ن) نے آرمی ایکٹ ترامیم کی حمایت کرکے اتنا غلط کام تو نہیں کیا جتنا کہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔ آرمی ایکٹ میں ایسی ترامیم کی گئی ہیں جس کے ذریعے سول حکمرانوں نے آرمی چیف کی تقرری بھی کرنی ہے اور بوقت ضرورت تو سیع بھی دیناہے لہٰذا پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور پی پی نے اپنے اپنے ماضی، حال اور مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے ان ترامیم کی حمائت کی ہے۔ آرمی ایکٹ ترامیم میں کہیں بھی ایسا نہیں لکھا گیا ہے کہ آئندہ وزیراعظم پاکستان آرمی چیف کوسلیوٹ کیا کرے گا۔درحقیقت یہ سول بالادستی کی ہی علامت ہے۔
اس کے علاوہ بھی میاں نواز شریف نے بمعہ میاں شہباز شریف اور مریم نواز کے اقتدار کے مہ خانے سے رجوع کرکے درست قدم اٹھایا ہے اور ”ساقی“ نے بھی صبح کے بھولے ہوئے بادہ نوش کے شام کو بوقت ضرورت گھر آنے پر خوش آمدید کہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) جب اقتدار کے اس مہ خانے سے جام بھر بھر کے پی رہی تھی تو میاں نواز شریف اور انکے چند دوستوں کا مطالبہ تھا کہ عوام کے مقبول رہنما ہونے کے ناطے انہیں نہ صرف ” قومی ساقی“ قرار دیا جائے بلکہ سمجھا بھی جائے اور باقی تمام قوتیں اپنے اپنے پیالے لیکر انہی سے جام کی درخواست کریں.
یہ سب کچھ پاکستان کے مستند ”ساقی“ کو پسند نہیں آیا تھا حالانکہ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کا مو¿قف تھا کہ بڑے میاں اقتدار کی تھوڑی مہ پر ہی گزارہ کریں وگرنہ ساقی اپنے باو¿نسرز کو کہہ کر مہ خانے سے باہر نکلوا دے گا۔ کیونکہ یہ دونوں رہنما اس اصول کو اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ بقول شاعر کے
”سب کی نظروں میں ہو ساقی یہ ضروری ہے مگر
سب پہ ساقی کی نظر ہو یہ ضروری تو نہیں“
اور پھر یہی ہوا ساقی نے میاں نواز شریف کو ساتھیوں سمیت مہ خانے سے نکال دیا اور ان پر الزام یہ بھی تھا کہ اقتدار کی مہ نے انکا دماغ خراب کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو شکر کرنا چاہیے کہ میاں نواز شریف کے جیل چلے جانے سے انکے پلیٹ لیٹس تو کم ہوئے مگر اقتدار کا نشہ بھی اتر گیا اور اب مسلم لیگ (ن) میں میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کا بیانیہ مقبول ہو گیا ہے ہماری اسٹیبلشمنٹ اقتدار کا ایسا ساقی ہے جسکی طبیعت اور فطرت کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان 22سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار کی منزل پانے میں کامیاب ہوئے حالانکہ سچ یہ ہے کہ عمران خان کو اقتدار کے ساقی کا دروازہ ڈھونڈ نے میں پندرہ سال لگے۔
عمران خان کہا کرتے تھے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل کے بغیر جمہوری نظام چاہتے ہیں لیکن2011ءمیں اسے اقتدار کے ساقی کا دروازہ ملا اور پھر انکا کوٹہ بڑھتا گیا ساقی نے ابتدائی طور پر خیبرپختونخواہ کی شکل میں عمران خان کو جام بھر کر دیا تھا۔ اور محبت کا یہ سلسلہ آگے بڑھاتو ہمارے ”قومی ساقی“ نے عمران خان کو پنجاب کا جام بھی دیا اور بلوچستان میں بھی آدھا پیالہ بھر دیا اور رہی سہی کسر وفاق کا پورا مہ خانہ ہی انکے حوالے کر دیا گیا۔ ابھی تک عمران خان کے اندر میاں برادران والی سوچ نے انگڑائی نہیں لی اور وہ سمجھتے ہیں کہ ساقی کا در پانے میں انہیں ایک طویل مدت گزارنا پڑی ہے اس لئے وہ ساقی کے ممنون نظر آتے ہیں اور ازخود ساقی بننے کے چکر میں نہیں ہے۔
جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا معاملہ ہے انکے پاس موج مستی کا بھی وقت ہے اور غلام علی کی نشیلی غزلیں بھی سن سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ غلام علی نے یہ غزل میاں برادران کیلئے ہی گائی تھی جس کے بول تھے۔
”ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے“
مسلم لیگ (ن) نے اپنے پرانے مہربان سے تعلق دوربارہ استوار کر ہی لیا ہے تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اس لئے ہنگامہ برپاکرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ البتہ پی ٹی آئی کیلئے یہ فکرمندی والی بات ہے۔