غدار یا آئین شکن؟
محمد مبشر انوار
آج کی دنیا میں آئین کسی بھی ملک میں،الہامی کتاب کے بعد،سب سے مقدس ترین کتاب تصور ہوتی ہے،جس کے ایک ایک آرٹیکل اور ایک ایک لفظ کی اپنی اہمیت کے ساتھ اس پر عملدرآمد ہر شہری پر لازم ہے۔ بنیادی طور پر آئین کے کسی ایک آرٹیکل کی خلاف ورزی،پورے آئین کی خلاف ورزی تصور ہوتی ہے الا یہ کہ آئین کے اندر ہی کسی ایک آرٹیکل سے متعلق سختی سے کچھ لکھا گیا ہو،تو اس ایک آرٹیکل کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
پاکستان وہ ملک ہے جس کو یہ اعزاز تو حاصل ہے کہ یہ جمہوری طور طریقوں سیحاصل ہوا مگر اس کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک کو کبھی جمہوری دور نصیب ہی نہیں ہوا۔ کبھی براہ راست مارشل لاء تو کبھی بالواسطہ جمہوری آمراس کے نصیب میں رہے،یوں ہر گذرتے دن کے ساتھ یہ اپنی منزل سے دور ہٹتا چلا گیا۔ اس پس منظر میں وطن عزیز کی دوسری بد نصیبی یہ رہی کہ یہاں طاقتور کو سلام کیا جاتا رہا،ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں رہا،سورج مکھی کے پھول کی مانند بااثرسیاسی شخصیات کا قبلہ تبدیل ہوتا رہا اور وہ یا ان کا خاندان ہر دور حکومت میں راج سنگھاسن پر براجمان رہا۔
نظام نام کی کوئی شے حقیقتاً نظر نہیں آتی،ہر طرف نفسا نفسی اور طاقتوروں کے جال نظر آتے ہیں،کہنے کو یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر جمہور کے حقوق کسی بھی دور میں پورے ہوتے یا ملتے نظر نہیں آئے۔ اولاً تو پاکستان کو آئین ہی میسر نہیں رہا کہ کبھی جمہوری تو کبھی آمر حکومتیں اپنی مرضی کا آئین اس ملک پر مسلط کرتی رہیں کہ جس میں صرف ان کی طاقت و اختیار کا تحفظ ممکن ہو سکے۔ متفقہ آئین کا اعزاز بہر طور ایک جمہوری حکومت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے جنہوں نے اس ملک کو ایک متفقہ آئین دیا،جس کی بنیاد پارلیمانی جمہوریت پر رکھی گئی۔
اس آئین میں آرٹیکل چھ تحریر کر کے اپنے تئیں مستقبل میں آمریت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کرنے کی سعی کی گئی،جو فقط چار سال بعد ہی آمریت کے پاؤں تلے یوں روندی گئی کہ اگلے گیارہ سال تک اس ملک میں آمریت کا دور دورہ رہا۔ اس دوران نمائشی جمہوریت کا ایسا کھیل رچایا گیا کہ اس کے ثمرات قوم آج تک بھگت رہی ہے،سیاستدانوں کے نام پر ایک ایسی کھیپ اس ملک کو دی گئی،جس نے صرف ذاتی مفادات کو ہی مقدم رکھا،ملک،جمہوریت اور جمہور کسی بھی کھاتے میں نظر نہیں آئے۔ اس نمائشی جمہوریت کو بھی اسی شرط پر منظر عام پر لایا گیا کہ اگر وہ آمر کے اقدامات کو آئین کے تحت تحفظ فراہم کرے تا کہ کسی بھی صورت آئین کا آرٹیکل چھ آمر کے گلے کاپھندا نہ بن سکے۔
یوں آئین میں لکھا گیا آرٹیکل چھ،جس کا مقصد ہی آمریت سے بچاؤ تھا،جمہوری ادارے /پارلیمان سے ہی تحفظ پا کر اپنی موت آپ مر گیا۔ مفاد پرست اور نرسری کے تربیت یافتہ سیاستدانوں (جو سیاست کی ابجد سے بھی واقف نہیں،کہ لٹیرے،تاجر اور کھلاڑیوں کو کسی بھی صورت سیاستدان تسلیم نہیں کیا جا سکتاتا وقتیکہ ان کی ذہنی پختگی،بلوغت اور پرفارمنس انہیں سیاستدان ثابت نہ کرے) کی موجودگی میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ملک میں جمہوری دور کا دور دورہ ہوتا۔ یہاں تو صرف اقتدار ہی خواہش نا تمام رہا اور ڈگڈگی پر سب حکمران تھرکتے رہے،آئین کس چڑیا کا نام ہے،اس کا تقدس کیا ہے،اس کی اہمیت کیا ہے،اس سے کسی کو غرض ہی نہیں رہی،تو یہ کیسے ممکن تھا کہ کوئی آئین پر عملدرآمد کرتا؟
اس پس منظر میں یہ کس کی مجال تھی کہ کوئی طاقتوروں کے ساتھ الجھتا،ہر کسی کی یہی خواہش رہی کہ کسی طرح ان کو اپنی وفاداری کا یقین دلا کر اقتدار،خواہ لولا لنگڑا ہی سہی،حاصل کیا جائے۔ یہی کچھ محترمہ بے نظیر کے ساتھ بھی ہوا اور یہی بالآخر عمران خان کو کرنا پڑاکہ اقتدار کی خاطر اسی بساط پر بے اختیار مہروں کی مانند،سر جھکائے پرانی تنخواہ پر نوکری کرنے پر مجبور نظر آئے۔
جنرل پرویز مشرف،ایک اور آمرنے آرٹیکل چھ کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے،بلا شرکت غیرے اس ملک پر حکومت کی اور اپنے پیشرؤں کی مانند اسمبلی سے اپنے اقدامات کی توثیق بروقت کروائی بلکہ عدالت عظمی نے اسے آئین میں ترامیم کرنے کا اختیار تک بھی دیا،یوں بارہ اکتوبر ننانوے کا اقدام آرٹیکل چھ کے شکنجے میں آنے سے بچ گیا۔ تین نومبر کو آئین شکنی کرتے ہوئے اعلی ترین عدلیہ کے ججز کو پابند سلاسل کرنے کی کوشش اورحالات کے تیز ترین بہاؤ نے مشرف کو اپنے اقدام کی توثیق سے محروم کردیا،اس محرومی نے آرٹیکل چھ کا پھندا کسی بھی وقت مشرف کی گردن میں لٹکا دیامگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے مفاہمت کے نام پر مشرف کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہ کی۔
نوازشریف کے عزائم بہر طور دوسرے تھے کہ وہ براہ راست مشرف کے زیر عتاب رہے تھے،یوں 2013میں اقتدار میں آتے ہی نواز شریف نے مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ درج کروا دیامگرپی ٹی آئی ایک سال بعد ہی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی،جس کے متعلق اس وقت بھی یہی رائے رہی کہ اس کا فائدہ صرف مشرف کو ہو گا،جو بعد ازاں ہوا بھی اور مشرف اس دھرنے کی آڑ میں مکھن سے بال کی مانند ملک سے باہر جا پہنچے۔ آرٹیکل چھ کا مقدمہ بھی چھ سال ہی چلا اور اس کے تفصیلی فیصلے میں مشرف کو سنگین غداری کا مجرم گردانتے ہوئے پھانسی کی سزا سنا دی،گو کہ پھانسی کی اس سزا پر عملدرآمد کسی بھی صورت ممکن نہیں کہ تین رکنی بینچ کے ایک جج نے واضح طور پر اس سے اختلاف کیا ہے جبکہ ایک معزز جج نے پیراگراف چھیاسٹھ کی زبان سے اختلاف کیا ہے،یوں سزائے موت کا یہ فیصلہ ناقابل عمل ہو چکاہے۔
آئین کے آرٹیکل چھ کے مطابق،آئین کی معطلی،آئین سے روگردانی یا آئین کو نظر انداز کرنے کی کسی بھی طرح کی کوشش،سنگین غداری کے زمرے میں آتی ہے اور اعلی ترین عدالتیں اس کو توثیق نہ کرنے کی مجاز ہوں گی۔ درحقیقت آئین میں الفاظ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے شامل کئے گئے جبکہ مشرف کا اقدام،جس پر ان کا اطلاق کیا گیا وہ اس ترمیم سے قبل ہوا،یوں مشرف کو ایک ایسے جرم کی سزا سنائی گئی،جو قانون کے بننے سے پہلے کیا گیا،تا ہم اس مقدمے کے دوسرے ا رخ کے مطابق یہ دلیل بودی ثابت ہوتی ہے کہ سنگین غداری کی سزاکے ایکٹ مجریہ 1973میں واضح طور پر لکھا کہ اس کا اطلاق1956سے کسی بھی ایسے شخص پر ہو سکتا ہے جس نے بزور آئین کو توڑا ہو،اس کو معطل کیا ہو یا اس سے روگردانی کی ہو،کے خلاف مجاز شخص کی درخواست پر سنگین غداری کی کارروائی ہو سکتی ہے اور عدالتیں،جرم ثابت ہونے پر،اسے سزائے موت یا عمر قید کی سزا سنا سکتی ہیں۔
آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ پہلی بارعدالت میں پیش ہوا اور عدالتی کارروائی کے عین مطابق اس کو سنا گیا،فرد جرم(ملزم کی موجودگی میں)عائد ہوئی،بعد ازاں ملزم ملک سے باہر چلا گیا تاہم چونکہ فرد جرم ملزم کی موجودگی میں عائد ہو چکی تھی،اس لئے عدالتی اختیار کیمطابق اس کی عدم موجودگی میں سزا سنا دی گئی۔ اب معاملہ دوسرا ہے کہ اپیل کی خاطر مجرم کا ذاتی حیثیت میں پیش ہونا یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے پیش ہونا لازم ہے جبکہ عدالت عظمی کے پاس اختیار ہے کہ وہ مجرم کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے سے استثنی دیتے ہوئے،اپیل کا حق دے دے۔یہ بھی ممکن ہے کہ عدالت عظمی اس فیصلے کی توثیق کردے یا اس کو دوبارہ ریمانڈ کردے یا سزا ختم کردے(جس کا امکان انتہائی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے)۔
دوسری طرف اس فیصلے کے بعد فوج کی طرف سے جو بیان آیا ہے وہ بھی انتہائی اہم بلکہ یوں کہا جائے کہ بہ امر مجبوری برداشت کیا گیا ہے تو غلط نہ ہو گا کہ اس وقت پس پردہ ہی سہی،اختیار تو وہیں ہے جہاں پچھلی کئی دہائیوں سے ہے۔ فوج کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو فیصلے میں دی گئی سزا کے علاوہ سب سے تکلیف دہ بات،سابقہ چیف آف آرمی سٹاف پر لگایا جانیوالا سنگین غداری کا الزام ہے،جس پر فوج میں سخت تحفظات پائے جاتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سابقہ آرمی چیف،جس نے جنگیں لڑی ہوں،ملک کی قیادت کی ہو،اس پر سنگین غداری کا الزام دھر دیا جائے۔
صورتحال واقعتاً انتہائی گھمبیر ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس امر پر فوج اس فیصلے سے ڈر کر حکومت پر قابض نہیں ہوئی یا حکومت کو گھر نہیں بھیجا تو وہ انتہائی غلط فہمی کا شکار ہے کہ اس وقت فوج کو یہ اقدام اٹھانے کی چنداں ضرورت ہی نہیں وگرنہ یہ فوج کے لئے نا ممکن نہیں۔گو کہ مشرف کے خلاف فیصلہ آ چکا اور مشرف پر سنگین غداری کا الزام بھی ثابت ہو چکا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آیا واقعی غداری کا یہ الزام لغوی معنوں میں لگا ہے یا صرف آئین کے آرٹیکل چھ کی زبان کے تحت غدار قرار دیا گیا ہے؟ میری رائے میں غداری کا یہ الزام قطعی طور پر لغوی معنوں میں ثابت نہیں ہوا بلکہ اس کا مقصد کسی بھی آمر کو طالع آزمائی سے روکنے کی خاطر اور آئین کا تقدس بحال رکھنے کی خاطر لگایا گیا ہے۔
ممکن ہے یہی وجہ ہو کہ فوج اپنے سابقہ چیف کے خلاف دئیے گئے فیصلے پر جزبز ہے تو دوسری طرف سرحدوں کی نازک صورتحال کی وجہ سے کوئی بھی انتہائی اقدام اٹھانے سے گریزاں ہے۔ ان حقائق کے باوجود یہ واضح ہے کہ اگر کوئی بھی طالع آزما بروقت اپنے غیر آئینی اقدامات کا تحفظ پارلیمان سے ممکن نہ بنا سکے تو عوامی نمائندے اس تاک میں ہیں کہ ایسے موقع کو کسی بھی صورت ضائع نہ جانے دیں لیکن آئین کا صرف ایک آرٹیکل ہی اتنا معتبر کیوں؟
کیا پورا آئین اس تقدس کا حقدار نہیں اور کیا اس کے کسی بھی آرٹیکل پر کماحقہ عمل کرنے یا عمل درآمد نہ کروانے سے آئین کی روگردانی نہیں ہوتی؟ کیا اس کا مرتکب بھی آئین سے غداری کے زمرے میں نہیں آتا؟کوئی طالع آزما کسی بھی صورت پارلیمانی جمہوریت میں ناقابل قبول ہے،اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں،مگر کوئی بھی طالع آزما ایک ایسے ادارے کا سربراہ ہی ہوتا ہے،جس کی وفاداری شک و شبہ سے بالا تر ہوتی ہے اور ہونی چاہئے.
اسے سنگین غداری کا مجرم ٹھہرانا بھی انتہائی نا مناسب ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت پاکستان وہ ملک ہے جہاں اداروں کے درمیان ہمیشہ سے ہی رسہ کشی جاری رہی ہے اور ادارے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں،باہمی ہم آہنگی کا شدید بحران پاکستان کے اداروں میں پایا جاتا ہے،جسے دور کرنے کی بجائے مسلسل انگیخت کیا جاتا ہے۔ ملک ایسی صورتحال میں کسی بھی صورت ترقی کی جانب گامزن نہیں ہو سکتے بلکہ اس رسہ کشی میں مسلسل تنزلی کا شکار رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں آئین میں اتنی ترامیم ہو چکی،وہیں کسی بھی طالع آزما کے لئے ”سنگین غداری“ جیسے لفظ کو تبدیل کر کے”آئین شکن“ کہہ کر بھی وہی سزا سنائی جا سکتی ہے،جس سے فوج کے جذبات اس قدر مجروح نہ ہوں۔