لطیفہ باز سیاستدان
آج کا اخبار پڑھا ہے؟۔ خبریں نہیں بس لطیفے گھڑے گئے ہیں۔ جب سے اخبار پڑھا ہے طبیعت خوش ہو گئی۔سینیٹ چیئرمین الیکشن کے بعد میں چند روز کے لیے پی ایس ایل دیکھنے دبئی کیا گیا سارے سیاستدان ہی لطیفہ باز ہو گئے، ایسے ایسے لطیفے سنائے ہیں کہ بس۔
پہلی خبر ایک ایسے سیاستدان کی ، جس کی قوم کی پہچان بھی اس کے والد نے سیاست کی نذر کر دی، بلاول بھٹو یا بلاول زرداری؟۔خیر یہ ان کے گھر کا معاملہ ہے ، اصل بات ان کی تقریر تھی۔ ایک ایک کر کے ان کے مختلف لطیفے آپ کی نذر کرتا ہوں مع مختصر تجزیہ کے۔
پہلا لطیفہ: نواز شریف ایسا کھلونا ہیں جس کی چابی ٹوٹ گئی، نئی چابی لگا دیں تو یہ کھلونا اسی طرح گھومے گا جیسے ضیا کی چابی سے گھومتا تھا۔ اب کون بلاول کو بتائے، چابی والوں نے کھلونا ہی تبدیل کر لیا ہے اور وہ کھلونا اب آپ کے گھر میں ہی دستیاب ہے، آپ جب چاہیں اس کے ساتھ کھیل سکتے ہیں۔ سینیٹ کے الیکشن میں معلوم نہیں ہوا؟۔
تھوڑا عرصہ رک جائیں، اگر آپ میں بھی یہی جذبہ رہا تو بہت جلد یہ چابی آپ میں بھی فٹ ہو سکے گی، بس تھوڑی سی لچک ہونی چاہئے اور غالباً آپ میں تو لچک بھی زیادہ ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ عمران کو مزید سبق سکھائیں گے۔۔ جی ہاں، یہ ایسے ہی ہے جیسے اپنے خادم اعلیٰ صاحب کہتے تھے حکومت ملنے پر زرداری کو سڑکوں پہ گھسیٹیں گے، پھر انہوں نے حکومت ملنے پر زرداری کو اپنے محل میں دعوت پر بلایا اور ڈائننگ ٹیبل پر دو درجن سے زائد پکوان رکھ کے ان سے انتقام لیا۔
ہمارے کئی دوست چاہتے ہیں انہیں بھی شہباز شریف اسی طرح اپنی ڈائننگ ٹیبل پر گھسیٹیں لیکن ان کی باری نہیں آتی اور وہ بھی مدت سے بھوکے ہیں۔بلاول کا مزید سبق سکھانے کا مطلب ہے کہ جس طرح سینیٹ کے الیکشن میں دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے، ایسا وہ بار بار کرنے کو تیار ہیں۔
بلاول مزید کہتے ہیں خان صاحب نے دی تو صرف گالی ، کچھ لیا تو صرف یو ٹرن، اب کرپٹ متعارف کرا رہے ہیں۔ جی انہوں نے سیکھا ہی گالی دے کر یو ٹرن لینا ہے ورنہ سامنے والا بھی گالی دے سکتا ہے، جہاں تک آپ کی بات ہے اب کرپٹ متعارف کرا رہے ہیں تو آپ کا اشارہ کہیں باربر اعوان، فردوس عاشق اعوان یا نذر گوندل کی جانب تو نہیں؟۔
ویسے انہوں نے حال ہی میں سلیم ایچ مانڈوی والا اور صادق سنجرانی کو بھی متعارف کروایا ہے۔۔۔ کیا خیال ہے؟۔
مزید لطیفوں کے لیے آپ کو لے چلتے ہیں آج کے دور کے عظیم سیاستدان۔۔ محترم عمران خان کی جانب۔۔ وہ فرماتے ہیں انتخابات میں زرداری کو ساتھ ملانا پڑا تو آئینہ میں شکل نہیں دیکھ سکوں گا۔اب ہے ناں سال کا بہترین لطیفہ؟۔
ابھی سینیٹ کے الیکشن کے بعد معلوم نہیں خان صاحب آئینہ دیکھنے میں کامیاب ہو سکے ہیں یا نہیں؟۔ یہ معلوم کرنا پڑے گاکیونکہ وہاں بھی تو ساتھ ملانا پڑا تھا بلکہ خان صاحب اپنے جن ارکان کا ہاتھ چھ بلوچوں کے ہاتھ میں دے آئے تھے انہوں نے ہی خان صاحب کی رضا کے ساتھ پی ٹی آئی ارکان کا ہاتھ زرداری صاحب کے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔ بس پھر کیا تھا خان صاحب نے آئینہ نہیں دیکھا۔۔ ہا ، ہائے۔۔
عمران خان نے مسکراتے ہوئے بے بلاول سے پوچھا ہے، بتائیں آپ کے والد ارب پتی کیسے بنے؟۔ بلاول کیسے بتائے کہ پہلے وہ پتی بنے اور پھر لاکھ سے کروڑ اور کروڑ سے ارب پتی کا فاصلہ چند سال میں طے ہوا۔ ویسے سندھ کے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ناصر حسین شاہ نے اس پر عمران کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے والد کے کردار پر نظر ڈالیں افاقہ ہو گا۔
یہ اپنے خورشید شاہ بھی کمال کرتے ہیں انہوں نے عمران کی کراچی میں ہونے والی تقریر کا جواب مختصر بات میں دیا ہے کہتے ہیں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف مل کر الیکشن لڑ سکتی ہیں۔ کہتے ہیں خان صاحب ہمیں سپورٹ کر رہے ہیں، سینیٹ میں ہمارے امیدواروں کو ووٹ دیا۔۔ اب اس کے بعد عمران کے آئینہ والے لطیفہ پر زیادہ ہنسی آتی ہے ناں؟۔
عمران خان کا کہنا ہے سینیٹ میں پیسہ چلنے کا سب سے زیادہ فائدہ مولانا فضل الرحمن نے اٹھایا، زرداری، نواز کی وکٹیں ایک ساتھ گراوٴں گا۔اب کوئی پوچھے جناب فضل الرحمن نے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ نقصان اٹھایا ہے کیونکہ آپ کے ارکان اسمبلی نے مذہبی جماعت جے یو آئی کے امیدواروں سے کئی کروڑ رشوت لے کر انہیں گنہگار کر دیا ہے۔
اپنے طلحہ محمود کتنے شرمندہ پھر رہے ہیں کوئی نہیں جانتا، کئی سیانے کہتے ہیں جب سے انہیں کسی نے بتایا ہے کہ رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں وہ سب کے پاس جا کر روئے ہیں کہ ان کی رشوت انہیں واپس کر دی جائے تاکہ وہ گناہ سے بچ سکیں ، انہیں اپنی سینیٹ کی نشست کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے لیکن کوئی مانتا ہی نہیں ہے۔
لیجئے ایک اور اچھا لطیفہ پیش کرتا ہوں مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں: ایک دوسرے کو کرپشن کا ماما چاچا کہنے والے عمران اور زرداری اکٹھے ہوگئے۔ شاید اس موقع پر ان سے کسی نے پوچھا نہیں جناب ان دونوں ماما چاچا کے امیدواروں کو سینیٹ الیکشن میں آپ کے ارکان نے ووٹ آپ سے پوچھے بغیر ڈالے تھے؟۔
سابق وزیر اعظم معصوم سے نواز شریف کہتے ہیں عمران زرداری بھائی بھائی، عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں، مہرے کبھی مخلص نہیں ہوتے۔ جناب عالی، مہروں کے حوالہ سے جو آپ نے بیان دیا ہے کیا وہ آپ کا مشاہدہ ہے یا تجربہ؟۔ ویسے سچی بات ہے مہرے کسی کے ہوئے نہ مہرے رکھنے والے۔۔
پرانے پاپی قسم کے لطیفہ بازوں کی صف میں اپنے نوجوان حمزہ شہباز بھی شامل ہو گئے ہیں۔ کہتے ہیں چور دروازے سے سازشیں کر کے کوئی لیڈر نہیں بن جاتا۔۔ بات تو سچ ہے لیکن کاش یہ بات آپ نے اس وقت کی ہوتی جب آئی جے آئی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی لیکن آپ شاید اس وقت چھوٹے تھے۔۔
حمزہ مزید کہتے ہیں نواز شریف بننے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ بات یہ بھی سچی ہے لیکن نواز شریف بننے کے لیے جو بیلنے پڑتے ہیں کیا وہ پاپڑ ہوتے ہیں؟۔
آج کے لیے بس اتنا ہی اگر ایسے ہی اخبارات میں لطیفے شائع ہوتے رہے تو جلد ہی مزید لطیفوں کے ساتھ حاضر ہوں گا، اجازت دیجئے۔ اللہ حافظ