پیٹرا کی داستان
جاوید چوہدری
پیٹرا کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا‘ یہ ہوا کی طرح ہے‘ یہ خوشبو کی طرح ہے اور یہ برف میں گرم جھونکے کی طرح ہے‘ آپ اسے صرف محسوس کر سکتے ہیں آپ بیان نہیں کر سکتے‘ یہ اگر دنیا کا تیسرا عجوبہ ہے تو یہ واقعی عجوبہ ہے اور یہ عجوبہ ٹشو پیپر کی طرح آپ کو اپنی سرخ چٹانوں میں جذب کر لیتا ہے‘ آپ آپ نہیں رہتے‘ آپ بھی پیٹرا بن جاتے ہیں‘ پیٹرا کیا ہے؟
پیٹرا انسانی ہاتھوں کی صناعی ہے‘ میلوں لمبی پینٹنگ‘ صدیوں پر پھیلا تہذیب کاایک نغمہ اور وقت کے صفحوں پر درج ایک حیران کن داستان ہے۔ اردن کے پاس اگر کچھ نہ بھی ہوتا تو بھی اردن کی بقا‘ اردن کی عزت کے لیے پیٹرا کافی تھا‘ یہ کسی بھی ملک کے لیے ایک مکمل حوالہ ہے‘ وقت کا حوالہ‘ وقت وہ جو گزر گیا‘ وقت وہ جو گزر رہا ہے اور وقت وہ جو ہمارے بعد بھی گزرتا رہے گا‘ پیٹرا وقت اور انسان دونوں کی اجتماعی داستان ہے۔
آپ اگر عمان سے خلیج عقبہ کی طرف سفر کریں تو آپ ساڑھے تین گھنٹے میں پیٹرا میں داخل ہو جاتے ہیں‘ یہ وادی موسیٰ کے پہاڑوں میں واقع ہے‘ حضرت موسیٰ ؑ صحرائے سینا سے ہوتے ہوئے یہاں تشریف لائے تھے‘ شہر میں حضرت موسیٰ ؑسے منسوب ایک چشمہ بھی موجود ہے‘ یہ چشمہ بھی عین موسیٰ کہلاتا ہے‘ چشمے کا پانی بہت ٹھنڈا‘ صاف اور صحت بخش ہے اور یہ ساڑھے تین ہزار سال سے علاقے کی ضرورت پوری کر رہا ہے‘ حکومت نے چشمے کے اوپر عمارت بنا دی ہے‘ ہم نے چشمے کا پانی پیا‘ پانی واقعی صاف اور ٹھنڈا تھا‘ اس میں حضرت موسیٰ ؑ کی دعاؤں کی تاثیر بھی تھی۔
پیٹرا وادی موسیٰ کے آخر میں تھا‘یہ شہر 14ویں صدی کے بعد گم ہو گیا تھا‘ یہ انیسویں صدی میں مقامی چرواہوں نے بکری کی تلاش کے دوران دریافت کیا‘یورپ سے اسے سوئس سیاح جوہان لڈوک نے 1812ء میں متعارف کرایا‘ ہم چار گھنٹے کے بعد پیٹرا پہنچے‘ ٹکٹ خریدے اور ایک پتھریلی سڑک پر آ کھڑے ہوئے‘ سامنے گھوڑوں کا تھان تھا‘ ہر ٹکٹ ہولڈر کو گھوڑے کی سواری کا موقع دیا جاتا ہے‘ ہم گھوڑوں کے ذریعے پتھریلی زمین پر چلتے ہوئے بلند وبالا پہاڑوں کے درمیان پہنچ گئے۔
ہمارے چاروں اطراف پہاڑ تھے اور ان پہاڑوں کے درمیان پانچ چھ میٹر چوڑا ایک درہ تھا‘ ہم درے میں داخل ہو گئے‘ ہمارے دائیں اور بائیں اونچے پہاڑ تھے اور پہاڑوں کے درمیان لمبی اور پیچ دار گلی کی طرح ایک طویل درہ تھا‘ درے میں سیکڑوں سیاح چل رہے تھے‘ یہ راستہ ہزاروں سال قبل انسانوں نے سرخ پتھر کاٹ کر بنایا تھا‘ وہ لوگ پہاڑوں کے اوپر بیٹھ کر پتھر کاٹتے کاٹتے دو اڑھائی سو فٹ نیچے آئے‘ گلی بنائی اور وہ اس گلی کو چار کلو میٹر تک لے گئے۔
آپ اس سرنگ نما گلی میں چلتے جائیں‘ آپ کو دو سو فٹ اوپر آسمان کی سفید لکیر دکھائی دے گی اور آپ کے دائیں بائیں سرخ پتھروں کی دیواریں ہوں گی‘ گلی کے دونوں طرف فرش سے پانچ فٹ اوپر پانی کی نالیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں‘ ان نالیوں میں پینے کا صاف پانی چلتا تھا‘ نالیاں سودو سو فٹ کے بعد حوض میں تبدیل ہو جاتی تھیں اور حوض پانی کی کثافت دھو کر اسے آگے روانہ کر دیتا تھا‘ درے کے اندر دونوں طرف پچاس ساٹھ فٹ کی بلندی پر غار تھے‘ یہ غار قدیم دور میں پیٹرا کے لوگوں کی رہائش گاہیں تھے۔
ان میں شہر کے نگران اور فوج بھی رہتی ہو گی‘ہر آدھ کلو میٹر بعد گلی کھلی ہو جاتی تھی‘ یہ جگہیں قدیم زمانے میں ’’میٹنگ پلیس‘‘ یا چوک ہوتی ہوں گی‘ گلی کے دونوں اطراف قدیم زبان میں فرمان بھی تحریر تھے‘ پتھر کے اندر بت بھی تراشے ہوئے تھے اور دیویاں اور دیوتا بھی‘ یہ پتھر وقت کے ہاتھوں مدہم ہو چکے ہیں‘ صرف ان کے آثار باقی ہیں‘ راستے میں دو جگہ ٹیمپل بھی تھے‘ گھوڑے باندھنے کی جگہیں بھی اور پانی کے حوض بھی‘ درے کے اندر خاص قسم کی خوشبو اور ٹھنڈ تھی‘ یہ جگہ یقینا گرمیوں کے موسم میں ٹھیک ٹھاک ٹھنڈی ہوتی ہو گی۔
گلی کے آخر میں ایک وسیع عمارت تھی‘ یہ عمارت خزانہ کہلاتی ہے‘ پوری عمارت پہاڑ کاٹ کر بنائی گئی تھی‘ عمارت کے چھ ستون تھے‘ ستونوں کے اوپر آرچ تھی‘ آرچ کے اوپر دو دو ستونوں کے تین سیٹ تھے اور ان کے اوپر گنبد تھے‘ گنبدوں کے اوپر قدیم دیوتاؤں کے بت تھے ‘ یہ تمام چٹان تراش کر بنائے گئے تھے اور یہ ’’ون پیس‘‘ تھے‘ یہ فن کا نکتہ کمال تھا اور وہ لوگ جو اسے بناتے رہے تھے وہ کوئی عام لوگ نہیں تھے‘ وہ ہنر اور فن کی مٹی سے تراشے ہوئے حیران کن لوگ تھے۔
خزانہ پیٹرا کا شناختی نشان ہے‘ آپ جہاں بھی پیٹرا ٹائپ کریں گے یا پیٹرا کی تصویر دیکھیں گے آپ کو خزانے کی تصویر ملے گی‘ یہ عمارت صرف عمارت نہیں یہ ایک جادوگری‘ ایک طلسم کدہ ہے‘ خزانے سے دائیں طرف مڑیں تو دنیا کے اس عظیم خفیہ شہر کاسب سے بڑا چوک آ جاتا ہے۔
چوک کے چاروں طرف پہاڑوں کے مختلف لیولز پر مختلف قسم کے ٹیمپل‘ محلات اور مکان ہیں‘ ہر عمارت پہاڑ تراش کر بنائی گئی تھی‘ ہر عمارت کے نیچے گیراج تھا‘ یہاں پرانے زمانے میں گھوڑے‘ گدھے اور خچر باندھے جاتے تھے‘ گیراج کے اندر سیڑھیاں تھیں‘ یہ سیڑھیاں مختلف لیولز سے ہوتی ہوئیں چٹان کے آخری سرے تک چلی جاتی تھیں‘ وہ لوگ چٹان کے آخری سرے پر اپنی خواب گاہیں بناتے تھے‘ خواب گاہوں کے باقاعدہ ٹیرس بھی ہوتے تھے اور کھڑکیاں اور دروازے بھی اور یہ سب چوک کی طرف کھلتے تھے۔
چٹان تراش کر غار بنانا اور پھر غاروں کو خوبصورت‘ ہوادار اور محفوظ گھروں میں تبدیل کرنا آسان کام نہیں تھا لیکن وہ لوگ ہزاروں سال تک یہ کارنامہ سرانجام دیتے رہے‘ چوک کے درمیان میں اسٹیڈیم تھا‘ یہ پورا اسٹیڈیم نیچے سے لے کر اوپر تک پہاڑ تراش کر بنایا گیا تھا اور یہ دنیا میں اس نوعیت کا واحد اسٹیڈیم تھا‘ قبل مسیح میں یقینا وہاں گلیڈی ایٹرز بھی ہوتے ہوں گے‘ اسٹیڈیم سے آگے دائیں جانب پہاڑ کی بلندی پر ٹیمپل تھے۔
ٹیمپلز کے جہازی سائز کے کالمز دل میں ہیبت طاری کر رہے تھے‘ ٹیمپلز کے اوپر پہاڑوں کا طویل سلسلہ تھا‘ ہم نے پہاڑوں پر چڑھنا شروع کر دیا‘ چڑھائی مشکل بھی تھی اور تھکا دینے والی بھی لیکن ہم جیسے تیسے چڑھ گئے‘ ٹاپ کا منظر حیران کن تھا‘ دور دور تک سرخ پہاڑ تھے اور ان پہاڑوں میں پیٹرا چھپا ہوا تھا‘ ہمیں وہاں جا کر پتہ چلا‘ یہ کوئی ایک شہر نہیں تھا‘ یہ چھوٹے چھوٹے شہروں کا گروپ تھا۔
ہماری نظر جہاں تک جا رہی تھی وہاں تک پہاڑ تھے‘ ان پہاڑوں پر غار تھے اور ان غاروں میں گھر تھے‘ وادی کے درمیان سے دریا بھی گزر رہا تھا‘ دریا خشک تھا‘ شاید یہ دریا برسات کے موسم میں زندہ ہوتا ہو‘ پہاڑوں کے اوپر سے پانی کے چھوٹے چھوٹے چینلز نیچے آ رہے تھے‘ پیٹرا کے لوگوں نے اس پانی کو گھروں تک پہنچانے کے لیے پہاڑوں کے ساتھ ساتھ نالیاں بنا رکھی تھیں‘ یہ نالیاں تمام گھروں تک پانی پہنچاتی تھیں‘ گھر اور نالیاں ضرورت اور پانی کے فلو کو ذہن میں رکھ کر بنائی گئی تھیں۔
پہاڑوں کے اوپر تک باقاعدہ سیڑھیاں ہیں‘یہ سیڑھیاں بڑی ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں پہاڑوں کے اوپر بھی گھر اور چھاؤنیاں تھیں اور وہ لوگ گھوڑوں‘ گدھوں اور خچروں کے ساتھ یہاں تک پہنچتے تھے‘آپ کو بلندی سے تمام شہر پہاڑ دکھائی دیتے ہیں‘ آپ وہاں کھڑے ہو کر کسی طور اندازہ نہیں کر سکتے نیچے آبادی بھی ممکن ہے‘ پیٹرا کے لوگوں نے شاید اپنے دفاع کے لیے پہاڑوں کے اندر یہ شہر تراشے تھے لیکن پھر وہ یہ معجزاتی شہر چھوڑ کر کہاں چلے گئے؟
کسی کو معلوم نہیں! ہم چوٹی پر دائرے میں گھوم کر اس چٹان تک پہنچ گئے جس کے بالکل نیچے خزانے کا گیٹ تھا‘ یہ دنیا کی ’’موسٹ وانٹیڈ راک‘‘ ہے‘ آپ اگر زندگی اور موت کے خطرات سے بچ کر اس چٹان تک پہنچ جائیں اورآپ میں اگر مزید خطرات مول لے کر دو سو فٹ نیچے کھائی میں لٹکنے کی ہمت ہو تو آپ تین بائی دو فٹ کے اس پتھر تک پہنچ سکتے ہیں جس کے عین نیچے خزانے کا گیٹ ہے‘ یہ پیٹرا میں تصویر کے لیے شاندار ترین اسپاٹ ہے لیکن اس اسپاٹ پر صرف ایک فیصد سیاح پہنچ پاتے ہیں‘ ہم چاروں ڈھیٹ قسم کے لوگ تھے چنانچہ ہم وہاں پہنچ گئے‘ ہم نے فضا میں لٹکے اس پتھر پر بھی قدم رکھ دیا ۔
جس پر ذرا سی لرزش انسان کو دو سو فٹ نیچے لے جا سکتی ہے‘ ہم نے اس خطرناک پتھر پر لیٹ کر تصویریں بنوائیں اور واپسی کا سفر شروع کر دیا‘ پیٹرا کے تمام نوجوان انڈیانا جونز کے مرکزی کردار(ہیریسن فورڈ) کی طرح لمبے لمبے بال رکھتے ہیں‘ ماتھے پر رنگین رومال باندھتے ہیں اور تنگ جینز پہنتے ہیں‘ یہ گیٹ اپ شاید ان لوگوں نے فلم سے لیا تھا یا پھر ہیریسن فورڈنے ان لوگوں کے گیٹ اپ کو فلم میں کاپی کیا‘ اللہ بہتر جانتا ہے تاہم یہ حقیقت ہے انڈیانا جونز سیریز کی فلم لاسٹ کروسیڈ کا ایک بڑا حصہ پیٹرا میں فلمایا گیا تھا۔پیٹرا کی بلند ترین چوٹیوں پر اللہ کے نبی اور حضرت موسیٰ ؑ کے بھائی حضرت ہارون ؑ کا مزار بھی ہے لیکن وہاں پہنچنے کے لیے کم از کم تین گھنٹے کی چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے لہٰذا ہم وہاں نہیں جا سکے۔
ہم واپسی کے لیے چوٹی سے روانہ ہوئے تو سورج ڈوب رہا تھا‘ قدرت پیٹرا کے افق پر سرخی مل رہی تھی‘ سرمئی چٹانیں سرخ ہو رہی تھیں‘ میں کنارے پر پہنچ کر رک گیا‘ میرے سامنے سرخ افق تھا‘ وادی میں اندھیرے کی سیاہ لکیریں ابھر رہی تھیں اور ہمارے پاؤں کے نیچے سرمئی چٹانیں اپنا رنگ‘ اپنا روپ بدل رہی تھیں‘ شام کے اس لمحے ہماری پشت پر چودھویں کا چاند بھی چمک رہا تھا۔
میں نے زندگی میں بہت کم چاند اور سورج کو اکٹھا دیکھا‘ یہ دونوں اس وقت پیٹرا کی چوٹی پر موجود تھے‘ سامنے ایک گورا سیاح اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ ایک غار صاف کر رہا تھا‘ یہ دونوں وہ رات دنیا کی اس طلسماتی جگہ پر گزارنے کا منصوبہ بنا رہے تھے‘ میں نے لمبی سانس لی اور پیٹرا کا سارا فسوں اپنی رگوں میں اتار لیا (بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)