فرض کریں عمران خان استعفیٰ دے دیں
محبو ب الرحمان تنولی
فرض کریں مو لانا کے آزادی مارچ کے دباو پر وزیراعظم عمران خان مستعفی ہوجاتے ہیں۔۔ حکومت گر جاتی ہے۔۔تو پھر آگے کیا ہوگا؟ کسی کے پاس کوئی پلان ہے ؟ وہ معیشت جو ایک با اثروزیراعظم اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے باوجود پاوں پر کھڑی نہیں کر پار ہا۔۔ اسمبلیاں ٹوٹنے اور نئے انتخابات تک کے دو یا تین ماہ کے وقفے میں کس نہج پر جائے گی؟۔۔اس کا کسی اپوزیشن جماعت نے ہو م ورک کیا ہوا ہے ؟۔۔ شہباز شریف آج کہتے ہیں کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کی مدد سے چھ ماہ میں معیشت کو پاوں پر کھڑا کر دیں گے ، یہ وہی شہباز شریف ہیں جو چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کرکے اپنی مدت کے آخری ماہ تک لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی بجائے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے تھے کہ اب لوڈ شیڈنگ کم ہوتی ہے پہلے جتنی نہیں رہی۔
دوسرے پوائنٹ پربھی غور کریں اپوزیشن بالخصوص مولانا فضل الرحمان وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ مانگ کر نئے انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ مینڈیٹ چرایا گیاہے اس لئے عوام کو نئے سرے سے اپنے عوامی نمائندے منتخب کرنے کا موقع دیاجائے۔۔ فرض کریں اسمبلیاں بھی ٹوٹ گئیں ۔۔ نئے انتخابات کا بھی شیڈول آگیا تو کیایہ نئے انتخابات اقوام متحدہ آ کر کرائے گی؟
وہی الیکشن کمیشن ہو گاجس پر مولانا معترض ہیں۔۔ وہی فوج ہو گی جس کی نگرانی میں گزشتہ الیکشن ہوئے تھے۔۔وہی تمام سیٹ اپ ہو گا جس کے تحت پہلے الیکشن ہوئے تھے ۔۔ اگر آپ شکست کھاگئے تو کیا پھر الیکشن
کا مطالبہ کریں گے؟ یہ ملک ہے یاکوئی مزاق ہے۔
افسوس ہی کیاجاسکتاہے اپوزیشن جماعتوں کے بے سمت اوربصیرت سے محروم سفر پر۔۔ یہ ملک ایسا ملک ہے جوماضی کی تقریباٰ چارحکومتوں کے لادھے ہوئے قرضوں تلے دباہوا ہے۔۔آج سود ادائیگی کیلئے بھی نئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔۔ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پہلی بارنہیں لگائے گے۔۔ ہم گزشتہ تین دہائیوں سے ہر الیکشن کے بعد انتخابات میں دھاندلی کا شور سن رہے ہیں۔۔۔ مگر مجال ہے سیاسی جماعتیں آج تک اس کا کوئی حل نکا ل سکیں ہوں۔۔ کاش گزشتہ دس سالوں میں پانچ پانچ سال حکومت کرنے والی دوبڑی جماعتیں ملک کو کوئی ایساسسٹم دے جاتیں کہ الیکشن میں دھاندلی کاراستہ رک جاتا۔۔ یہ خلائی مخلوق خلائی مخلوق کی گردان بھی ان کے منہ سے اب سنی ہے۔ جب یہ اقتدارمیں تھے تب توہمیں بتاتے تھے سیم پیج پر ہیں۔
اگرعمران خان سلیکٹڈ ہے تو کیا یہ سلیکشن پہلی بار ہوئی ؟۔۔ جب کبھی آپ کو آئی جی آئی بنا کر اس کی سربراہی سونپی جارہی تھی توتب آپ کو یہ سوچ کیوں نہیں آئی تھی کہ جب فیصلہ عوام نے کرنا ہے تو آپ کو ایک اتحادکوئی اور کیوں بنا کر دے رہا ہے؟۔۔اس کے بعدبھی سلیکٹرز نے توسلیکشن کا سلسلہ جاری رکھا لیکن تب آپ کامفادتھا تو کسی نے سلیکشن کا نام تک نہیں لیا۔۔ نوازشریف کے علاوہ مشرف کا دور بھی تو گزرا ہے تب بھی تو عوام کے زور یا فیصلے پر توحکومت نہیں بنی تھی۔۔ لیکن آپ نے ہر دور میں سلیکٹرز کا نام لئے بغیر اللہ اللہ کیا اور چیئرمین کشمیر کمیٹی خودبنتے رہے ۔۔ دو چار وزارتیں قابو کیں اور چپ کا روزہ رکھ لیا۔
گزشتہ دور میں جب پی ٹی آئی دھاندلی کے الزامات کے بعد عدالت گئی۔۔ دھرنا دیا۔۔احتجاج کرتی رہی تب آپ اس احتجاج اوردھرنے کوحرام کہتے رہے۔۔پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر حکومت پر زور دیتے رہے کہ ریاست اپنا زور دکھائے اورچند ہزار لوگوں کوڈی چوک سے ماربھگائے۔۔ کاش آپ تب اس بات کی حمایت ہی کر دیتے کہ جن چار حلقوں کا کہہ رہے ہیں یہ کھول دو۔۔ تا کہ آئندہ دھاندلی کے عمل کو روکا یا کم کیا جاسکے۔۔ مگر اس وقت آپ کا طوطی بولتا تھا۔۔آپ کودھاندلی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
عمران خان سلیکٹڈ اور نالائق سہی ۔۔ ایک سسٹم کے تحت اوپر آ گیا ہے ۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دور میں مہنگائی زوروں پر ہے۔ ہم ایسے سفید پوشوں کا جینا مشکل ہو گیاہے ۔۔عمران خان کے قول وفعل میں تضاد نے بھی بہت سوں کی امیدوں پر پانی پھیرا ہے۔۔عمران خان کو جتنا اچھا بولنا اور تقاریر کرنا آتا ہے اتنا ملک چلانا نہیں آتا۔۔ اس شخص کو اندازہ ہی نہیں کہ 10.20.یا 30ہزار روپے کی ملازمت کرنے والا گزارا کیسے کرتاہے؟ مزدور کیسے فاقوں پرمجبور ہے۔۔ غریب کیسے خود کشیاں کررہے ہیں۔۔وزیرعظم صاحب غریب عوام کو ریلیف دینے کی بجائے الٹا ہر مہینے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔۔بجلی کے نرخ بھی ہر ماہ بڑھ جاتے ہیں۔۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی
ہیں لیکن باز پرس نہیں ہو رہی۔۔لیکن ان مسائل کے باوجود ملک ان برے حالات میں نئے الیکشن کامتحمل نہیں ہوسکتا۔
مولانا آپ کے کنٹینر پرآپ کے ساتھ جو کھڑے آپ کے ہمنوابنے ہوئے ہیں یہی اس معیشت کو تباہ کرکے گئے ہیں۔ تین دہائیوں سے یہ لوگ مرکز میں بھی اور صوبوں میں بھی حکمران رہے لیکن ملک تباہ ہونے کا آپ ان سے حساب نہیں لے رہے ان سے نہیں پوچھ رہے ۔۔ اپنے آپ سے نہیں پوچھ رہے ۔۔ کیو نکہ آپ بھی تو بیس سال سے اقتدارکی غلام گردشوں میں ان کے دست راست رہے ہیں۔۔ لیکن ایک لیڈر کو نشانے پر رکھ لیا ہے جس کے اقتدارمیں آئے ابھی 14ماہ ہوئے ہیں۔۔ آپ ابھی سے حساب مانگ رہے ہیں۔۔ میثاق جمہوریت کرکے کرپشن میں ہاتھ رنگنے والوں کو پانچ سال دیئے مگر جو جماعت پہلی باراقتدار میں آئی ہے ان کو ڈیڑھ سال بھی برداشت نہیں کیا جارہا۔
آئی ایم ایف کے اور دیگر غیر ملکی مزید قرضوں کی وجہ سے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے لیکن ایک اچھی خبر ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں نے یہ سنائی ہے کہ ہماری معیشت کا وینٹی لیٹر اتر گیا ہے۔۔ یہ درست ہے ہمار ی حکومت جب ہمیں کچھ دینے کی بجائے الٹا ٹیکس ٹیکس کامطالبہ کر رہی ہے۔۔ وزیراعظم کو خود غریب عوام کا ہرضرورت کی چیز پر دیا ٹیکس نظر نہیں آتا ۔۔ یوٹیلٹی بلز پر عوام کے جیبوں سے مال بٹورنا نظر نہیں آتا۔۔ جب امیر طبقہ ان کے قابو نہیں آرہا۔۔ تاجر احتجاج پرچلے جاتے ہیں۔۔ صنعت کار حکومت کو بلیک میل کرنے کیلئے انڈسٹریز بند کرنے کی دھمکیاں لگاتے ہیں تو پھر حکومت ایف بی آر اور نیب کو ہاتھ ہولا رکھنے کا کہتی ہے۔۔ لیکن عوام پر ہاتھ ہولا کرتے انھیں خوف آتا ہے کہ ملک دیوالیہ نہ ہو جائے۔
متذکرہ تمام مسائل کے باوجود ، عمران خان کے یو ٹرنز کے باوجود۔۔ گڈگورننس کی سست رفتاری کے باوجود ہمیں عمران خان کے اخلاص پر کوئی شک نہیں ہے۔۔ یہ شخص دیانتدار ہے۔ ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتا ہے۔۔ اس کی ٹیم کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ باقی مشینری جسے وزراء نے چلانا ہوتا ہے وہ اپنا کردار ادا نہیں کررہے ۔۔ زیادہ تر تالیاں بجاتے اور بادشاہ سلامت کی تعریفوں میں گزار دیتے ہیں۔۔ کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ زرا باہر نکل کر حالات کا بھی جائزہ لیں عوام کس حال میں ہیں۔۔ کارو باری طبقہ خود قیمتیں بڑھاتا ہے ۔۔ ہر چیز کے نرخ ہر مہینے بڑھ جاتے ہیں جب عوام پوچھیں یہ کیا ہو رہا ہے تو جواب ملتا ہے تبدیلی سرکار سے پوچھیں۔۔
لیکن مولانا صاحب اس کاہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ چودہ ماہ میں حکومت ختم کرکے ہم الیکشن کرا لیں۔۔آپ سمیت کنٹینر پر آپ کے ساتھ موجود سور ماوں کے صلاحیتوں کااظہار ہم دیکھ چکے ہیں۔۔ اب زرا اس شخص کو بھی دیکھ لیں۔۔ مدت پوری کرنے دیں۔۔ بے شک آئندہ انتخابات میں اسے ہمیشہ کیلئے گھر بھیج دیں۔۔۔ مگر یہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ مولانا
کا الیکشن الیکشن کھیلنے کا موڈ ہے تو پوری بساط لپیٹ دی جائے۔۔بے شک اگر چابی والے آپ کے پیچھے ہوں تو تب بھی نہیں۔۔۔ آپ وہی ہیں جو کہتے تھے حلف نہیں اٹھائیں گے اٹھا لیا۔۔ آپ کہتے تھے پارلیمنٹ نہیں بیٹھیں گے بیٹھ گئے۔ ۔اب معاہدہ کیا ہے کہ ایچ نائن سے آگے نہیں جانا آج کہہ رہے ہو عوام کا فیصلہ مانوں گا۔
مولانا اگر آپ بھی مسلسل عمران خان کی ہی طرح یو ٹرن لیتے ہیں توپھر عمران خان اور آپ میں فرق کیاہے؟ آپ تو دیندار اورعالم ہیں آپ بھی اگر ایسے ہی جھوٹ بولیں گے۔۔ معاہدے کر کے پھر جائیں گے تو پھر تو باقیوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔۔ کیاآپ سے ہم یہ بھی امید رکھیں کہ آپ استعفیٰ کے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔۔ کوئی گملہ تک نہیں ٹوٹے گا۔۔اگر آپ وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ لئے بغیر اٹھ گئے تو کیا مزید بند گلی میں نہیں چلے جائیں گے؟۔۔ باشعور طبقہ یہ بھی سوچتا ہے کہ ہمیشہ مذہبی لوگ ہی کیوں دھرنا دیتے ہیں؟ کبھی طاہرالقادری، کبھی مولانا رضوی اور کبھی مولانا فضل الرحمان۔
جن انتخابات کاآپ مطالبہ کررہے ہیں فرض کریں اگر وہ ہو جائیں تو کیا آپ سمیت اپوزیشن اتحاد ملکی معیشت چھ ماہ یا ایک سال میں ٹھیک کرکے مہنگالی کی موجودہ شرح نصف پر لا سکتا ہے؟ ملکی مسائل پرقابو پاسکتے ہیں؟ اگر جواب ناں میں ہو تو پھر اربوں روپے خرچ کرکے نئے انتجابات کا تجربہ کرنے کافائدہ کیا ہے۔۔ جو حکومت چل رہی ہے اس کو وقت کیوں نہ دیا جائے۔۔بہتر ہوتا کہ آپ کنٹینرپر چڑھنے سے پہلے ایک انقلابی روڈ میپ تیارکرتے اورآج عوام کو بتاتے کہ ہم عمران خان کی جگہ آ کر یہ یہ بہتری لانا چاہتے ہیں اس لئے انتخابات کامطالبہ کررہے ہیں۔۔یہ بھی تو ممکن ہے آپ کے مطالبے پر الیکشن ہوں اور آپ پھر ہار جائیں۔۔ انتخابی چیلنج قبول بھی کر لیا جائے توبقول وفاقی وزیر شیخ رشید احمد سارے مخالف ہار بھی جائیں تب بھی اقتدار آپ کو نہیں ملنے والا۔۔ آپ سپورٹنگ کردار ہیں سپورٹنگ ہی رہیں گے۔