خواتین کا عالمی دن
وقارفانی
عورت کیا ہے، یہ ماں ہے، بیٹی ہے بیوی ہے، جس رنگ جس رشتے میں ہے لازوال ہے، صبر کی داستان ہمت کا استعارہ ہے، اس کا وجود تصویر کائنات میں رنگ اس کے ساز کو زندگی کا سوزِ دروں کہا گیا مردوں کے معاشرے میں اسی صبر اسی ہمت کو کمزور کمتر اور غلام سمجھ لیا گیا ، کبھی وراثت سے نکال باہر کر دیا اور کبھی اس کی منشا سنے بغیر وداع کر دی، جس نے گھروں کے گھر ، خاندانوں کے خاندان پالے پھر بھی اسے وہ وقعت نا ملی جس کی وہ حقدار تھی، زمانہء جاہلیت میں زندہ گاڑھی گئی ، اب بھی کہیں کاری ، کہیں کالی ، کہیں سورا قرار دے کر زندگی کی سانسیں چھین لی جاتی ہیں۔۔۔
پاکستان کی 52فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے مگر معاشرتی طور پر خواتین کو کم تر سمجھا جاتا ہے اور ان کو معاشرے میں ترقی کے برابر مواقع میسر نہیں ہیں۔ صنعتی اداروں میں ورکنگ ویمن کا استحصال کیا جاتا ہے ان کی تنخواہیں مرد ورکروں کے برابر نہیں ہوتیں۔ ان سے سستی محنت لی جاتی ہے اور جنسی طور پر ہراساں کیا جانا تو جیسے مقدر میں لکھا ٹھہرا ہے۔
پاکستان کے طبقاتی سماج میں عورت دوہرے استحصال کا شکار ہے۔ ایک مزدور مرد بھی جو معاشی بدحالی کا شکار ہے وہ بھی اپنے گھر میں عورت کا حاکم ہوتا ہے اور اس کو کسی قسم کے حقوق دینے کے لیے تیار نہیں اور اس کا غصہ بھی بے چاری عورت پر نکلتا ہے۔جب چاہے اس کو تشد دکا نشانہ بناتا ہے۔ پاکستان میں زچگی کے دوران عورتوں کی کثیر تعداد جان کی بازی ہار جاتی ہیں اور بچے موت کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ صحت کے اصولوں کے مطابق عورتوں کو سہولتیں میسر نہیں، سرکاری ہسپتالوں میں بہت کم سہولتیں ہیں،غریب خواتین پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سکت نہیں رکھتیں۔اور عورتوں کے لیے جو قوانین بنائے گئے ہیں ان پر عمل درآمد نہیں کرایا گیا۔ایک اور المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کی ملازمت کو برا سمجھا جاتا ہے اس لیے بے شمار تعلیم یافتہ خواتین مختلف شعبوں میں جو اپنی خدمات سرانجام دے کر معاشرے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں وہ صرف گھر میں بیکار بیٹھی ہیں۔
ہر سال 8مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی کامیابیوں کا جشن منایاجاتا ہے۔وفاقی حکومت اور ر پنجاب حکومت کی طرف سے خواتین کو گھریلو تشدد سے بچانے کے لیے متعدد بل منظور کئے گئے ہیں ۔ہراسیت کے خلاف قانون بھی بن چکا ہے،حقوق نسواں کے لئے پارلیمنٹ میں خود خواتین نے آواز بلند کی۔خبریں یہ سامنے آئیں کہ خواتین کو تشدد کرکے گھر سے نہیں نکالا جا سکے گا اور شوہر تشدد نہیں کر سکے گا۔ خواتین پر گھریلو تشدد،معاشی استحصال، جذباتی،نفسیاتی بدکلامی اور سائبر کرائم بھی جرم قرار دئے گئے ہیں۔ تشدد کرنے والوں کو عدالتی حکم پر ٹریکنگ،کڑے لگائیں جائیں گے۔اور اتارنے والے کو ایک سال کی قید یا پچاس ہزار روپے سے ایک لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ ماضی میں بھی اس طرح کے بِل پاس ہو چکے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان پر عملدرآمد کروانا ہی حقیقی کامیابی ہے۔1976ء میں انسداد جہیز کا قانون بنایا گیا تھا مگر آج تک یہ قانون عملی طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔صرف یہی نہیں بلکہ اس کے اندر موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق کوئی ترمیم بھی نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے اس کا اطلاق موثر ثابت نہ ہو سکا۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی کئی لڑکیاں محض جہیز کے باعث اچھے رشتوں سے محروم رہ جاتی ہیں۔
زرا تاریخ میں جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر دنیا کے مختلف ممالک جن میں روس، ویت نام، چین اور بلغاریہ میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ہمارے ہاں ایسا شجر ممنوعہ ہے کیوں کہ ہم عمل کی بجائے باتوں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔کون نہیں جانتا کہ یہ دن خواتین کی ”جدوجہد“ کی علامت ہے۔ 1908ء میں 15000ہزار محنت کش خواتین نے تنخواہوں میں اضافے، ووٹ کے حق اور کام کے طویل اوقات کار کے خلاف نیویارک شہر میں احتجاج کیا اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کی۔ 1909ء میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی کی طرف سے پہلی بار عورتوں کا قومی دن 28فروری کو منایا گیا۔ 1910ورکنگ ویمن کی دوسری بین الاقوامی کانفرنس کوپن ہیگن میں منعقد ہوئی۔ جس میں Clara Zetkin (جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما) نامی عورت نے خواتین کے عالمی دن کے نظریہ کو پیش کیا۔ 17ممالک کی 100سے زائد خواتین نے اس تجویز کو متفقہ منظور کیا۔ اور ہر سال اس دن کو منانے کا فیصلہ ہوا۔1911میں کوپن ہیگن میں اس بات پر اتفاقی فیصلے کے بعد عالمی یوم خواتین (IWD)آسٹریلیا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں 19مارچ کو منایا گیا۔اس سب کے بر عکس اقوام متحدہ نے 8مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا اور خواتین کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے خواتین سے متعلق تمام امتیازی قوانین اور رویوں کے خاتمے کا کنونشن سیڈا(CEDAW)تشکیل دیا اور تمام ممبر ممالک پر زور دیا کہ وہ خواتین کے حوالے سے سیڈا کنونشن کے مطابق قانون سازی کریں۔
پاکستان میں بھی ہر سال 8 مارچ کو خواتین کی تنظیمیں خواتین کا دن جوش و جذبے سے مناتی ہیں اور تجدید عہد کرتی ہیں کہ خواتین کے حقوق کے حصول کی جدوجہد جاری رکھیں گی۔ سیمینار منعقد ہوتے ہیں، جلوس نکالے جاتے ہیں جن میں خواتین کا معاشرے میں سماجی کردار اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ میں یہاں یہ زکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ چیئرمین ہلالِ احمر پاکستان ڈاکٹر سعید الٰہی کی قیادت میں دیگر اقدامات کی طرح خواتین کو با اختیار بنانے، خواتین کے مسائل کے حل کیلئے پلیٹ فارم مہیا کرنے اور خواتین کو آپس میں مل بیٹھنے میں کے مواقع فراہم کرنے کیلئے 25 نومبر 2015ء کو ہلالِ احمر پاکستان وومن فورم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اِس فورم کے تحت متعدد صحت مندانہ سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا۔ خواتین کے حقوق کیلئے جدوجہد پر ہلال ِ احمر پاکستان وومن فورم کے اقدامات کو نہ صرف وطنِ عزیز میں بلکہ بیرون ِ ممالک میں بھی سراہا گیا ہے۔ اِس فورم کا مقصد خواتین کو با اختیار بنانا، ٹیلنٹ کو سامنے لانا اور خواتین کے مختلف کردار کو اُجاگر کرنا ہے۔ انسانیت کی خدمت کے جذبے کو فروغ دینے میں وومن فورم کامیاب رہا ہے۔ صحت عامہ کے مسائل اور اُن کا حل، معاشی خود مختاری، قائدانہ کردار سازی میں بھی وومن فورم نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حقوق نسواں کا تحفظ ہو،ان کو تعلیم کی سہولتیں فراہم کی جائیں، خواتین کو میرٹ کے مطابق ملازمتیں ملیں،ورکنگ ویمن کو قانون کے مطابق اوقات کار میں تحفظ ملے قانون کے مطابق وراثت میں سے حصہ دیں تاکہ وہ سماجی اور معاشی طور پر باوقار زندگی گزار سکیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی خواتین رہنماؤں کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے حقوق کی آواز بلند اور خواتین کے مفاد کا تحفظ جاری رکھنا چاہیے ورنہ یہ دن منانا سعئی لاحاصل ہو گی۔عورت ماں ہے، بیٹی ہے بیوی ہے، جس رنگ جس رشتے میں ہے لازوال ہے، صبر کی داستان ہے ہمت کا استعارہ ہے۔