افغانستان، امریکہ، اور طالبان کی ڈیل کےبعد
سلیم صافی
قطر میں جاری امریکہ اور طالبان کے مذاکرات آخری مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں۔ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے بنیادی مطالبات تسلیم کرلئے ہیں۔ امریکہ کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ طالبان یہ گارنٹی کرا دیں کہ وہ القاعدہ جیسی تنظیموں سے تعلق نہیں رکھیں گے اور اپنی سرزمین باہر کے ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا چاہتے ہیں اور افغان نژاد زلمے خلیل زاد کو اختیار دے کر انہوں نے ٹاسک دیا کہ وہ بہر صورت کوئی راستہ نکا لیں۔ وہ بھی جلدازجلد یعنی ستمبر تک۔
دوسری طرف طالبان کو سردست ایک نکتے سے غرض ہے۔ وہ امریکی افواج سے انخلا کا اعلان کروا کر فاتح کے روپ میں سامنا آنا چاہتے ہیں چنانچہ امریکہ ان کا یہ مقصد پورا کرکے ان کو فیس سیونگ دے رہا ہے۔
پہلے امریکی اصرار کررہے تھے کہ ان کی افواج تین سال میں نکلیں گی جبکہ طالبان چھ ماہ پر مصر تھے۔ اب لگتا ہے کہ بارہ چودہ ماہ پر اتفاق ہوجائے گا۔ طالبان نے امریکہ کا یہ مطالبہ مان لیا ہے کہ ریگولر فوج تو نکل جائے گی لیکن امریکی انٹیلی جنس اور کنٹریکٹر کی شکل میں موجود رہیں گے۔
دوسری طرف امریکیوں نے اپنا انخلا مرحلہ وار بنا کر ہر مرحلے کو طالبان کی طرف سے مختلف اقدامات سے مشروط کر دیا ہے۔ ابتدا میں امریکی اصرار کررہےتھے کہ بین الافغان مذاکرات بھی ساتھ ہوں لیکن طالبان اس کے لئے آمادہ نہ ہوئے۔ دوسری طرف افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی چونکہ طالبان کے ساتھ کسی معاہدے سے قبل صدارتی انتخابات کرانے پر مصر تھے، اس لئے ماسکو اور قطر میں افغان حکومت کے ساتھ طالبان کے جو بالواسطہ مذاکرات ہوئے، ان سے متعلق ان کا رویہ مصالحانہ کے بجائے جارحانہ تھا۔
یوں اب صرف امریکہ اور طالبان کی ڈیل ہورہی ہے اور امریکہ کا مؤقف ہے کہ مستقبل کے سیاسی نظام کا فیصلہ ان کو بلکہ افغانوں کو آپس میں مذاکرات کرکے کرنا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات میں زیادہ وقت مستقبل کے ممکنہ سیاسی ڈھانچے کے حوالے سے صرف ہوا۔ طالبان پہلے تو اپنی امارت اسلامی اور امیرالمومنین کے منصب کی بحالی کا مطالبہ کررہے تھے لیکن اب ایرانی ماڈل کی صورت میں ایک درمیانے راستے پر درپردہ اتفاق ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ طالبان مذاکرات میں سیاسی ڈھانچے کے حوالے سے اتفاق ممکن نظر نہیں آرہا تھا اور اس کی وجہ سے مذاکرات کے عمل کی ناکامی کا خدشہ تھا، اس لئے اب بین الافغان مذاکرات اور سیاسی ڈھانچے پر اتفاق جیسی چیزوں کو مستقبل پر چھوڑ کر معاہدہ کیا جارہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کی شق معاہدے کا حصہ ہوگا اور اس میں امریکہ اور پاکستان بالخصوص جبکہ کچھ دیگر ممالک بالعموم سہولت کار کا کردار ادا کریں گے اور یقیناً اصل مشکل مرحلہ یہی ہوگا تاہم جہاں تک امریکہ اور طالبان کا تعلق ہے تو ان کے مابین بنیادی نکات پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اب مسودہ لے کر زلمے خلیل زاد افغان حکومت اور پڑوسی ممالک کو اس پر اعتماد میں لے رہے ہیں جبکہ طالبان کی مذاکراتی ٹیم فیلڈ کمانڈروں اور اپنے ہمدرد ممالک کو۔ یوں فریقین کا یہ عمل جونہی مکمل ہوگا تو معاہدے پر باقاعدہ دستخط ہو جائیں گے۔
امریکہ اور طالبان کا یہ معاہدہ، طالبان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے تو بہت بڑی کامیابی ہے لیکن کیا یہ افغانستان اور اس کے حالات سے متاثر ہونے والے ممالک بالخصوص پاکستان کے لئے بھی کامیابی ہے؟ میرےخیال میں اس سوال کا جواب سردست ہاں میں نہیں دیا جا سکتا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ طالبان اور امریکہ کی ڈیل جتنی آسان تھی، بین الافغان ڈیل اتنی مشکل ہوگی۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ اب تک صرف پاکستان نہیں بلکہ ایران، چین اور روس وغیرہ بھی مذاکرتی عمل میں پوری طرح سہولت کاری کررہے تھے کیونکہ ان سب کی خواہش تھی کہ امریکی کسی طریقے سے نکل جائیں۔ اسی طرح ہندوستان جیسے ممالک بھی امریکی خوف کی وجہ سے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ نہیں کر سکتے تھے لیکن امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کے مستقبل کے سیاسی نظام میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لئے پراکسی وار زور پکڑ جائے گی۔ اسی طرح افغان حکومت کا رویہ اب بھی زیادہ مصالحانہ نہیں تھا لیکن فاتح کی صورت میں طالبان کو ایرانی ماڈل کی صورت میں وہاں لانا، افغان سیاسی عمل کے موجودہ کرداروں کو اپنی سیاسی موت نظر آتا ہے۔
یوں اب بین الافغان مذاکرات میں اس کا رویہ مزید سخت ہو سکتا ہے۔ طالبان نے امریکہ کو تو بڑی رعایتیں دے دیں لیکن بدقسمتی سے افغان حکومت کو وہ کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں تھے۔ وہ امریکہ اور پاکستان کے اصرار کے باوجود افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرت پر آمادہ نہیں ہوئے۔ اسی طرح مذاکرات کے دوران جنگ بندی کے لئے تیار ہوئے اور نہ امریکہ کے ساتھ معاہدے کے بعد فوری جنگ بندی کریں گے۔ اب جب معاہدے سے قبل طالبان کا رویہ اس قدر جارحانہ تھا تو اندازہ لگا لیجئے کہ فاتح بننے کے بعد ان کا رویہ کس قدر جارحانہ ہو جائے گا۔
اسی طرح یہ طے پایا ہے کہ مستقبل کے سیاسی نظام کی تشکیل پر طالبان اور افغان حکومت کو آمادہ کرنے اور حالات کو سنبھالنے میں امریکہ کے ساتھ پاکستان بھرپور کردا ادا کرے گا اور جس کی وجہ سے پاکستان میں بھی جشن کا سماں ہے لیکن امریکہ کے ساتھ معاہدے کے بعد طالبان پر پاکستان کا اثرورسوخ مزید کم ہوجائے گا۔
اب بھی صورتحال یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے امریکہ میں اعلان کیا تھا کہ وہ طالبان سے امریکی قیدیوں کو 48 گھنٹوں میں آزاد کرائیں گے لیکن وہ آج تک رہا نہیں ہوئے۔ اسی طرح انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ جاتے ہی طالبان سے ملیں گے لیکن پاکستانی حکام کی بھرپور کوششوں کے باوجود طالبان آج تک عمران خان سے ملاقات کے لئے رضامند نہیں ہوئے۔ ان حالات میں بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاہدے کے بعد پاکستان طالبان پر بین الافغان مفاہمت کے لئے کتنا دبائو ڈال سکے گا۔
یوں مذکورہ حقائق کو پیش نظر رکھ کر یہ بات کی جا سکتی ہے کہ ضروری نہیں کہ طالبان اور امریکہ کی کامیابی، افغانستان کی بھی کامیابی ہو۔ اگر اس معاہدے کے بعد فوراً بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے اور ان میں فریقین سیاسی ڈھانچے کی تشکیل پر جلدازجلد آمادہ ہو گئے تو افغانستان میں امن کا دور آسکتا ہے لیکن اگر وہ عمل تاخیر کا شکار ہوا تو خاکم بدہن 1989کا دورنہایت بدتر شکل میں واپس لوٹ آئے گا اور ایسی تباہی آسکتی ہے کہ لوگ ماضی کی تباہیوں کو بھول جائیں گے۔
ظاہر کہ اس تباہی سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہی ہوگا۔ اسی لئے میں التجائیں کرتا رہا کہ امریکہ اور طالبان کی مفاہمت سے پہلے، بین الافغان مفاہمت کی کوشش کی جائے۔ اسی لئے عرض کرتا رہا کہ امریکہ اور طالبان کو آپس میں بٹھانے سے زیادہ زور افغانوں کو آپس میں بٹھانے پر دیا جائے لیکن بہ ہر حال جو ہونا تھا ہوگیا۔ اب پاکستان کو کسی بھی ملک سے زیادہ بین الافغان مفاہمت کے لئے کوشش کرنا چاہئے کیونکہ وہاں کے حالات سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوگا۔
(بشکریہ جنگ)