جدیدیت اور حیا
آج ہمارا معاشرہ بہت تیزی سے برائی کی طرف گامزن ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ہماری نوجوان نسل میں سے حیا کے تصور کو ختم کرنا ہے۔جب آپ کسی قوم میں سے حیا کے تصور کو مٹا دیں گے تو وہ معاشرہ بہت آسانی کے ساتھ تباہ کیا جاسکتا ہے۔لیکن اگر ہم اپنے ماضی پر نظر ڈالیں تو یہ وہ سرزمین ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی لیکن بد قسمتی سے یہاں اس مذہب پر عمل کرنا سب سے مشکل بنا دیا گیا ہے۔
صرف چند محدود لوگوں کی ذہنیت کو پورے معاشرے میں پھیلانے کی کو شش کی جارہی ہے۔آج کے جدید یت پر ست لوگوں کو اپنا دفاع کرنے کے لیے یہ چند الفاظ مل گئے ہیں اور وہ کہتے پھرتے ہیں کہ حیاتو نظروں میں ہو تی ہے لیکن انہیں کون سمجھائے کہ اگر سامنے والا حیا کا خیال نہیں رکھے گا تودیکھنے والے کی نظروں میں حیا کہا ں سے باقی رہے گی ۔
آج کے معاشرے میں اگر والدین بھی بچوں کوروکیں کہ یہ چیز دیکھنے کی نہیں تو وہ بھی والدین کو پرانے خیالات کا مالک کہنے لگتے ہیں ۔آج کے معاشرے میں سوشل میڈیا کا دور ہے ہر کوئی دانشور بنا پھرتا ہے چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں رہی ،رشتوں کی اہمیت ختم ہو گئی ہے ۔
آج کے معاشرے کے پڑھے لکھے لو گ صرف اس چکر میں لگے ہو تے ہیں کہ وہ اچھا کمائے ،اچھا پہنے ،اچھا کھائے،اچھا دکھے اور آپس میں ایک دوسر ے سے برتر خود کو ظاہر کریں۔ان میں کسی قسم کے کوئی سماجی احساسات نہیں ہو تے ہر بات میں جھوٹ،پلاننگ ،خودغرضی اور دھوکہ سا نمایا ں نظر آتاہے۔
آج کے معاشرے میں فحاشی بہت تیزی سے بڑھتی ہو ئی نما یا ں نظر آرہی ہے لیکن ایک طبقہ اسی میں خوش نظر آرہا ہے انھیں زرا احساس نہیں کہ اس فحاشی کے اثرات کے نقصانات کیا ہوسکتے ہیں دوررس نتاہج سے یہ واقف نہیں ہیں ، یا واقف ہونا نہیں چاہتے کیوں کے معاشرے کا یہ طبقہ اس فحاشی زدہ ماحول کو سوشل اور پروفیشنل ماحول سمجھتے ہیں ۔
آج کا معاشرہ اس قدار اخلاقی زوال کا شکار ہے کہ اگر کوئی ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو ہمیں مدتوں یقین نہیں آتا اور پھر سوشل میڈیا دوست احباب کی محفل میں اکثراس کاذکرکرتے ہیں وجہ یہ کہ نفسا نفسی کے دور میں ہمیں کسی سے اچھا ئی کی امید نہیں رہی۔آج کل کے خبر نامے میں آدھا وقت اغوا،قتل اور تشدد پر مبنی ہوتا ہے عدم برداشت ہمارے معاشرے کا بنیادی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
معلومات کا نظام قائم کرنے کے لیے معاشرے نے مستجاب کا نظام قائم کیا ہے تاکہ لوگ معاشرتی معلومات کے مطابق زندگی گزاریں اور دوسروں کے حقوق غصب نہ کریں دوسروں پر ظلم وستم نہ کریں لیکن افراد معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے باوجودمعلومات کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں ۔آج کا معاشرہ بدترین شکل اختیارکررہاہے ۔
چوری ڈکیتی ،قتل ،زنا،منشیات فروشی ،عورتوں پر تشدد یہ معاشرتی اقدار سے انخراف کی مختلف صورتیں ہیں ۔مذہبی اور اخلاقی اقدار میں گراوٹ،دولت عزت کی خواہش ،منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال یہ سب وہ وجوہات ہیں جو لوگوں کو معاشرتی انخراف پر مجبور کرتی ہیں۔اسلام صرف سلامتی کا درس دیتا ہے ،قتل درندگی معاشرہ کس طرف جارہا ہے ۔
دنیا ولی کے در پر روحانیت فیض نورایمان لینے جاتی تھی مگر آج کے معاشرے میں یہ سب کچھ سننے دیکھنے کے قابل نہیں ۔۔کل کو مرید صوفی بنتے تھے لیکن آج قا تل بن رہے ہیں ۔
اس علم کا کیا فائدہ جو بندے کو اپنے رب سے جدا کردے اس کے اعمال کو بگاڑ دے اور اسکے اعمال کو شریعت کے خلاف کردے ایسا علم علم نہیں کہلاتا بلکہ جہالت ہے۔
خدارا اپنے ہر ایک عمل کو ٹھیک کرنے پر زور دیں اجتماعی زندگی کی درستگی وخوبی اور اس کو پر سکون وخوشگوار بنانے کے لیے ہمیں کلیدی قردار ادا کرنے کی ضرورت ہے خصوصا”نوجوان نسل چونکہ خوشگوار معاشرے کی تشکیل کے لیے نوجوان کی ذمہ داری سب سے اہم ہے ۔
آج کے معاشرے کی نئی نسل کی اولین ذمہ داری یہ ہی ہے کہ وہ اسلام کی تعلیم اخلاقیات سے آراستہ وپیراستہ ہو کر معاشرہ میں خود اس کاعملی نمونہ پیش کرے۔اللہ ہم سب کو ہدایت کا راستہ دیکھائے اور ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔
(آمین)