عورت کو مارنا کتنا آسان ہے؟
وسعت اللہ خان
بھارتی ریاست جھاڑکھنڈ کی پولیس اور کرائم انویسٹی گیشن بیورو کے مطابق 2001 سے 2018کے درمیان ریاست میں 590 عورتوں کو ڈائن، چڑیل، بدروح قرار دے کر سنگسار کیا گیا یا درخت و چھت سے لٹکا کر پھانسی دی گئی یا قتل کیا گیا۔
ان میں سے بیشتر وارداتیں دیدہ دلیری سے ہجوم کے سامنے ہوئیں اور ہجوم نے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ تفریح کا مزہ لیا اور کئی وارداتوں کی وڈیوز بھی بنائیں۔
صرف جھاڑ کھنڈ کی راجدھانی رانچی میں 2016 سے 2018 کے 2 برس میں 13 عورتوں کو ڈائن یا چڑیل قرار دے کر ہلاک کیا گیا۔ پولیس کے پاس ہلاکتوں کے اعداد و شمار تو ہیں مگر ان عورتوں کے بارے میں کوئی ریکارڈ نہیں جنہیں ڈائن سمجھ کے مارا تو نہیں گیا البتہ گرم لوہے سے داغا گیا، ان کے اعضا کاٹے گئے ، انہیں گاؤں میں عریاں گھمایا گیا اور بھیڑ نے انہیں دیکھ کر تالیاں بجائیں اور آوازے کسے۔
عورتوں کے خلاف انسانیت کش جرائم مذہب، رنگ، نسل کی بنیاد پر ہونے والی اجتماعی تشدد سے ہونے والی ہلاکتوں کے علاوہ ہیں۔ان ہلاکتوں میں 2014 سے اب تک 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس عرصے میں ہجوم کے ہاتھوں تشدد کی 600 سے زائد وارداتوں میں لگ بھگ 300 اموات ہوئیں، مرنے والوں میں اکثریت مسلمانوں یا ادنی زات کہلائے جانے والے ہندوؤں کی تھی۔
پٹنہ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے استاد شمشیر عالم اور جھاڑکھنڈ سینٹرل یونیورسٹی کے ادتیہ راج نے اس موضوع پر ریسرچ میں بتایا ہے کہ جن خواتین کو ڈائن اور چڑیل بتا کے مارا جاتا ہے ان میں سے اکثر بیوہ ہیں یا پھر وہ عورتیں جن کے نام تھوڑی بہت جائیداد ہے۔
ریاست میں 2001 سے وچ کرافٹ پریوینشن ایکٹ بھی لاگو ہے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی عورت کو ڈائن بتا کر اس پر تشدد کے ذمہ دار شخص کو 3 ماہ سے ایک برس تک کی قید اور 2 ہزار روپے جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے ( کیا عبرت ناک سزا ہے ۔واہ )۔
پاکستان اگرچہ رقبے کے اعتبار سے بھارت سے کم از کم 7 گنا اور آبادی کے اعتبار سے 5 گنا کم ہے لیکن اگر اس تناسب سے یہاں عورتوں اور کمزور اقلیتوں کے خلاف جرائم کو ضرب تقسیم کیا جائے تو ہم بھارت سے کسی طور انیس نہیں۔
کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق پاکستان میں 2015 سے 2018 کے درمیان غیرت کے نام پر ڈیڑھ ہزار قتل ہوئے، گویا بھارت میں اگر عورت کو ڈائن یا چڑیل قرار دے کر مارنے کا چلن زیادہ ہے تو پاکستان میں اس کا متبادل غیرت ہے۔
مگر نیت وہی ہے یعنی پاؤں کی جوتی اور مویشیوں کی طرح ملکیت سمجھنا اور جائداد ہڑپ کرنے کی بے غیرتی کو غیرت کے پردے میں چھپانا۔ ویسے ہر معاملے میں مذہب کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر غیرت کی تشریح مذہبی سے زیادہ من مانے رواجات کے نام پر ہوتی ہے۔
البتہ اس معاملے میں صرف پاکستان کو مطعون کرنا بھی زیادتی ہے۔ حال ہی میں بی بی سی عربی سروس نے مشرقِ وسطی اور شمالی افریقا کے مسلمان ممالک میں سماجی رویوں کے بارے میں ایک جامع سروے کیا اس میں مختلف قومیتوں کے 25 ہزار شہریوں سے طرح طرح کے سوالات پوچھے گئے۔
ایک سوال یہ بھی تھا کہ غیرت کے نام پر قتل کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں ؟ 27 فیصد الجزائری، 25 فیصد مراکشی، 14 فیصد سوڈانی، 21 فیصد اردنی اور 8،8 فیصد فلسطینی، لبنانی و تیونسی سمجھتے ہیں کہ یہ قتل جائز ہے، امارات اور سعودی عرب میں سروے کرنے کی اجازت نہیں ملی ورنہ اعداد و شمار اور بھی بہتر ہو سکتے تھے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ عورت کو چڑیل سمجھ کے مارا جائے کہ بے غیرت اور کلنک کا ٹیکہ کہہ کے۔ اسے کسی بھی بہانے مارا جا سکتا ہے۔ جیسے یورپ میں سن 1450 سے 1750 تک کے 300 برس میں برطانیہ، جرمنی، فرانس اور مشرقی یورپ میں 35 ہزار سے ایک لاکھ تک عورتوں کو چڑیل یا جادو گرنی یا بد روح یا منحوس قرار دے کر گاؤں اور قصبات کے چوک پر پادری کی مناجات اور بخشش کی دعاؤں کے شور میں چوبی ستون سے لٹکا کر خشک گھاس کے ڈھیر میں آگ لگا دی جاتی تاکہ چڑیل زندہ بھن جائے۔
ان میں سے اکثر ’چڑیلیں یا جادو گرنیاں‘ وہ تھیں جو خوبصورت تھیں مگر پادری یا گاؤں یا قصبے کے طاقتور لوگوں کے ہاتھ نہ آتی تھیں یا صاحبِ جائیداد تھیں یا مطلقہ و بیوہ تھیں یا کسی دل جلے طاقتور عاشق کا دل توڑ بیٹھی تھیں۔
پھر یورپ تو مہذب ہوتا چلا گیا اور یہ لعنت ’ کم مہذب علاقوں‘ کی جانب سفر کرتی چلی گئی ۔
آج اگرچہ قانون کی گرفت پہلے سے سخت ہے، بدتمیز سوشل میڈیا بھی سر پے تلوار بن کے کھڑا ہے، خود خواتین کو بھی اپنے حقوق کا کہیں زیادہ شعور ہے اور اب تو وہ اپنے خلاف ہونی والی زیادتیوں کا دیدوں میں دیدے ڈال کے بے دھڑک تذکرہ کرنے سے بھی نہیں چوکتیں۔
اس کے باوجود بہت سوں کا دل اب بھی چاہتا کہ ان نافرمان عورتوں کو چڑیل یا جادوگرنی والی سزا ملے، ہ ممکن نہیں تو ان کے چہرے پر تیزاب ہی پھینک دیا جائے، اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو انہیں تصاویر کے ذریعے اتنا بلیک میل کیا جائے کہ وہ اپنی جان خود ہی لے لیں اور اگر یہ بھی مشکل ہے تو زومعنی فقروں یا موقع ملے تو چٹکی بھرنے یا مسلسل گھورنے جیسے ہتھیاروں سے ہراساں تو کیا ہی جاسکتا ہے ۔
کیا یہ سب کبھی بدل پائے گا ؟ کبھی ایسا ہو پائے گا کہ عورت کو میں بدن کے بجائے اس کے دماغ سے ناپ سکوں؟ ابھی شاید کئی لاکھ سیمیناروں، ورکشاپوں ، قوانین اور روزگار و تعلیم و فیصلہ سازی میں برابری کی ضرورت ہے، ہو سکتا ہے اب سے کئی نسلوں بعد یہ دن بھی آ جائے، گر تب تک کیا نسلِ انسانی بھی رہے گی؟
(بشکریہ جنگ)