امریکا نہیں روس جائیں
جاوید چوہدری
”ہمیں 70 سال کی محبت کا کیا صلہ ملا؟ وقت آ گیا ہے ہم ساڑھے بارہ ہزارکلو میٹر دور محبت کی پینگیں بڑھانے کے بجائے اپنے ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنائیں“ مجھے آج بھی یاد ہے میرے دوست خواجہ آصف یہ کہتے ہوئے جذباتی ہوگئے تھے‘وہ ٹشو پیپر سے آنکھیں صاف کر رہے تھے اور بار بار روسی وزیر خارجہ سر گئی لیوروف (Sergey Lavrov) کا ذکر کر رہے تھے۔
یہ مارچ 2018ء کی سرد شام تھی‘ پرندے مارگلا کی پہاڑیوں کی طرف واپس لوٹ رہے تھے‘ سورج کے یرقان میں اضافہ ہو رہا تھا اور میں خواجہ آصف کے سادہ سے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا‘ وہ ن لیگ کی رخصت ہوتی حکومت کے آخری وزیر خارجہ تھے‘ پاکستان تازہ ترین امریکی حملے سے بچا تھا‘ فروری کے آخر میں پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس تھا‘ پاکستان کے پرانے اتحادیوں اور سوکالڈ دوستوں نے ہمیں دہشت گرد ملک ڈکلیئر کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا‘ پاکستان کے سر پر خطرے کی تلوار لٹک رہی تھی۔
اگر ہمیں ایف اے ٹی ایف بلیک لسٹ میں لے جاتا تو ہماری ایکسپورٹس رک جاتیں ‘ امپورٹس کے تمام معاہدے بھی منسوخ ہو جاتے‘ سرمایہ کاری بھی بند ہوجاتی اور عالمی ڈونرز بھی اپنے ہاتھ کھینچ لیتے اور یوں پاکستان دیوالیہ ہو جاتا لیکن پھر وزیر خارجہ خواجہ آصف سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کے ساتھ فوری طور پر ماسکو پہنچے اور عین 18 فروری کے اس دن جب پیرس میں ایف اے ٹی ایف کا اجلاس جاری تھا ، وہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف سے ملے اور اپنے ماضی کے دشمن سے براہ راست مدد مانگ لی‘ روس کا رویہ حیران کن تھا۔
سرگئی لیوروف نے موبائل فون نکالا اور پیرس میں موجود اپنی ٹیم کو ڈائریکٹ حکم دے دیا ”ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں“ خواجہ آصف اور تہمینہ جنجوعہ کو اس رویے کی توقع نہیں تھی‘ یہ وزارت خارجہ نہیں وزارت خزانہ کا ایشو تھا چنانچہ خواجہ آصف کا خیال تھا سرگئی لیوروف وزیر خزانہ سے کہیں گے اور یوں روس آہستہ آہستہ پاکستان کی مدد کرے گا لیکن روسی وزیر خارجہ نے اپنی سنیارٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزارت خزانہ کے اختیارات میں مداخلت کی اور پاکستان کی حمایت کا اعلان کر دیا‘ پیرس میں ایف اے ٹی ایف کا اجلاس چل رہا تھا‘ روس نے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو کر اچانک پوری دنیا کو حیران کردیا۔
چین اور ترکی شروع سے پاکستان کے حامی تھے چنانچہ پاکستان آخری لمحات میں ”بلیک لسٹ“ سے صاف بچ گیااور میں یہ کہانی سننے کے لیے خواجہ آصف کے پاس آیا تھا۔شام گہری ہو رہی تھی‘ خواجہ آصف کا کہنا تھا” میں تین حیثیتوں سے بار بار روس گیا‘ وزیر دفاع کی حیثیت سے بھی گیا‘ توانائی کے وزیر کی حیثیت سے بھی اور میں آخر میں وزیر خارجہ کے پورٹ فولیو کے ساتھ بھی ماسکو گیا‘ میں نے ہر لحاظ سے روسی حکومت اور لوگوں میں جذبہ اور محبت دیکھی‘ یہ لوگ مزاجاً ”پاکستانی ہیں‘ دوستوں کے دوست‘ دھڑے باز‘ یہ آپ کے ساتھ ہیں تو یہ پھر آپ کے ساتھ ہیں اور یہ اگر آپ کے مخالف ہیں تو پھر یہ آپ کے کھلے مخالف ہیں‘یہ منافقت نہیں کرتے‘ روسی سرد جنگ کے دوران ہمارے مخالف تھے۔
یہ کھل کر مخالف رہے اور یہ اب ہمارے دوست بننا چاہتے ہیں تو یہ واقعی ہمارے دوست بن رہے ہیں‘ یہ اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہیں“ میں نے خواجہ آصف سے پوچھا ”پالیسی شفٹ کی وجہ کیا ہے“ خواجہ آصف نے چند لمحے سوچ کر جواب دیا ”روس انڈیا کی وجہ سے ہمارا دشمن تھا اور یہ آج انڈیا ہی کی وجہ سے ہمارا دوست بن رہا ہے“ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ”انڈیا ماضی میں روس کو اپنے ساتھ رکھ کر امریکا اورپاکستان کو ڈراتا تھا اور یہ آج امریکا اور یورپ کو اپنے دائیں بائیں کھڑا کر کے روس اور پاکستان کو ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے‘ روسی بھارت کی یہ نیت سمجھ گئے ہیں چنانچہ یہ بلیک میل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں“ وہ رکے اور پھر بولے ”ہم نے2013ء اور 2014ء میں روس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
بھارت نے روس اور امریکا نے پاکستان سے شدید احتجاج کیا لیکن روس اپنے دیرینہ دوست بھارت کے دباوٴ میں نہیں آیا‘ ہم نے بھی امریکا کا احتجاج مسترد کر دیا، یوں پاک رشیا فوجی مشقیں بھی ہوئیں‘ ایئر فورس کے دستے بھی ملے اور دونوں ملکوں کی نیوی نے بھی جوائنٹ ایکسرسائز کیں‘ روس ہمیں اسلحے کی خریداری میں بھی کیٹگری چار سے کیٹگری دو پر لے آیا ‘ ہم اب اس سے ہر قسم کا اسلحہ درآمد کر سکتے ہیں۔
میں نے روس میں وزیر دفاع سرگئی شیوکیو (Sergey Shoygu) سے بھی ملاقات کی اور میں ڈپٹی وزیر دفاع الیگزینڈر فومن (Alexander Fomin) سے بھی ملا‘ یہ دونوں سروئنگ جنرلز ہیں‘ فومن ڈپٹی وزیر دفاع بننے سے پہلے ڈیفنس پروڈکشن کا وزیر تھا اور یہ وہ شخص ہے جس نے بھارت کے دباوٴ کے باوجود ہماری کیٹگری فور سے ٹو کی‘ یہ مجھے اپنی ان حساس جگہوں پر بھی لے گیا جہاں یہ کسی کو نہیں لے کر جاتے‘ روس نے میرے لیے اپنی سب سے بڑی کمپنی گیز پروم (Gazprom) کے دروازے بھی کھول دیے‘ یہ 113 بلین ڈالر کی کمپنی ہے‘ کمپنی میں ریاست سب سے بڑی شیئر ہو لڈر ہے‘ یہ روس کی آدھی معیشت ہے‘ مجھے روسی وزیر دفاع اور ڈپٹی نے کہا ”آپ ہم سے جو کچھ لینا چاہتے ہیں آپ لیں لیکن ایک شرط ہے‘ آپ ہمارے ساتھ کھلے دل کے ساتھ چلیں“۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا ”ہم 65 سال روس سے دور رہے لیکن روس نے ہمارے لیے ان تمام اداروں کے دروازے کھول دیے جن تک امریکا نے ہمیں 70 برس کی دوستی میں رسائی نہیں دی‘آپ المیہ دیکھیے‘ ہمارے ستر برس کے دوست ہمیں گھسیٹ کر ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ تک لے گئے جب کہ ہم جسے دشمن سمجھتے تھے وہ ایف اے ٹی ایف کے ہر اجلاس میں ہمارے ساتھ کھڑا ہو گیا چنانچہ ہمیں 70 سال کی محبت کا کیا صلہ ملا؟ ہمیں اب ساڑھے بارہ ہزار کلو میٹر دور محبت کی پینگیں بڑھانے کے بجائے اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے چاہییں“ہماری میٹنگ ختم ہو گئی۔
مجھے اس وقت خواجہ آصف کی بات سمجھ نہیں آئی تھی لیکن میں وقت گزرنے کے ساتھ ان کی بات کا قائل ہو گیا‘ ہمارے خطے میں دو سپر پاورز ہیں‘ روس اور چین اور ہمارے دائیں اور بائیں بھارت اور ترکی دو ابھرتی ہوئی معاشی طاقتیں بھی ہیں چنانچہ ہمیں ساڑھے بارہ ہزار کلو میٹر دور ایک ایسے ملک امریکا کے ساتھ لٹکنے کی کیا ضرورت ہے جس تک پہنچنے میں بھی ہمیں چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں لہٰذا ہمیں دور دراز کے چچا کے بجائے اپنے ناراض بھائیوں کو راضی کرنا چاہیے‘ ہمیں اپنے خطے میں توجہ دینی چاہیے‘ہمارے تمام مسئلے بھی لوکل ہیں اور ان مسئلوں کے حل بھی مقامی ہیں‘ہماری پالیسی میں بھی شفٹنگ آ رہی ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اسلام آبادمیں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے دو دل چسپ باتیں کیں‘ یہ دونوں باتیں ہماری تازہ ترین فارن پالیسی ہونی چاہییں‘ یہ بولے‘ ملک ترقی نہیں کرتے خطے کرتے ہیں‘ دوسرا حکومت نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کو یقین دلایا ہم افغانستان کو بھارت تک راہداری دے دیں گے‘ ملک نہیں خطہ اور راہداری یہ دونوں بڑے اعلان ہیں‘ یہ راہداری پاکستان کو پورے خطے سے جوڑ دے گی۔
یوں سارک ملک سی پیک کے ذریعے چین‘ سینٹرل ایشیا اور روس سے جڑ جائیں گے اور یہ بہت بڑی ڈویلپمنٹ ہو گی‘ مجھے سرتاج عزیز نے ایک بار بتایا تھا ‘میں نے دو سال قبل راہداری کی تجویز پیش کی تھی لیکن عسکری‘ سیاسی اور سویلین تینوں قائدین میرے گلے پڑ گئے تھے‘ مجھے کہا گیا تھا مسئلہ کشمیر کے حل تک ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے لیکن آج جنرل باجوہ کی طرف سے یہ اعلان ہماری پالیسی شفٹنگ کو ظاہر کرتا ہے اور یہ بہت اچھا فیصلہ ہے‘ ہم نے چین کے ساتھ ”سی پیک“ کر کے بھی اچھا قدم اٹھایا تھا‘ ترکی ہمارا دیرینہ دوست ہے‘ ہم لوگ نسلاً آدھے ترک ہیں‘ لفظ اردو تک ترکش ہے‘ بس روس تھوڑا سا دور ہے‘ ہمیں اب اس پر کام کرنا چاہیے‘ روسی حکومت پاکستان کو ہر سال دو اڑھائی سو اسکالر شپ دیتی ہے لیکن یہ وظائف فائلوں میں پڑے پڑے ختم ہو جاتے ہیں۔
روس نے 2018ء میں میڈیکل اور انجینئرنگ کے دو سو اسکالر شپ بھجوائے تھے‘ ہم نے صرف 16 طالب علم بھیجے‘ یہ زیادتی بھی ہے اور غیر سفارتی رویہ بھی‘ ہمیں یہ تمام وظائف استعمال کرنے چاہییں‘ یہ طالب علم دونوں ملکوں کے درمیان برف پگھلانے میں اہم کردار ادا کریں گے‘ روس اور پاکستان کے درمیان سرد جنگ کے زمانے میں بارٹل ٹریڈ ہوتی تھی‘ روس کی طرف سے پانچ سو ملین ڈالر کا کلیم چلا آ رہا ہے‘ یہ تنازع ہماری تین کمپنیوں مرکری‘ الفتح اور تابانی گروپ اور روسی وزارت تجارت کے درمیان ہے‘ 290 ملین ڈالر سیٹل ہو چکے ہیں‘ صرف 200 ملین ڈالر باقی ہیں۔
حکومت کو یہ مسئلہ بھی فوری طور پر حل کر دینا چاہیے اور روس کی خواہش ہے جس طرح پاکستان میں سی پیک چین اور موٹر وے جنوبی کوریا کی نشانی ہے بالکل اسی طرح پاکستان میں روس کا بھی کوئی بڑا پراجیکٹ نظر آنا چاہیے‘ ہمیں تعلقات استوار کرنے کے لیے روس کو بھی کوئی بڑا منصوبہ آفر کرنا چاہیے‘ ہم اس سے پوشکن کے نام سے کوئی بڑا شہر بھی بنوا سکتے ہیں‘ کوئی بڑی انٹرنیشنل یونیورسٹی بھی اور پاکستان‘ افغان روس شاہراہ بھی‘ پاکستان کے اندر روس ضرور دکھائی دینا چاہیے‘ ہمارا سب کچھ اس خطے میں ہے‘ امن بھی‘ ترقی بھی اور خوش حالی بھی اور فخر بھی‘ ہمیں اب ساڑھے بارہ ہزار کلو میٹر دور سے نظر ہٹا کر خطے میں واپس آنا چاہیے‘ ہمیں اپنی پالیسی شفٹ کرنی چاہیے۔
ہمیں اب جان لینا چاہیے ہم ہمسایوں کو ناراض کر کے دور کے دوستوں سے زیادہ دیر تک فائدہ نہیں اٹھاسکتے‘ عمران خان امریکا جا رہے ہیں جب کہ روسی صدر پیوٹن عمران خان کو ماسکو میں دیکھنا چاہتے ہیں‘ یہ صورت حال ہمیں ایک بار پھر 50ء کی دہائی میں لے جا رہی ہے‘ ہم نے خان لیاقت علی خان کے زمانے میں روس کی جگہ امریکا کو اہمیت دے کر غلطی کی تھی‘ ہمیں اب یہ غلطی نہیں دہرانی چاہیے‘ ہمیں اب امریکا کے بجائے روس کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہیے‘ مجھے یقین ہے روس ہمارا اچھا دوست ثابت ہو گا۔
(بشکریہ ایکسپریس)