عدم اعتماد یا محفوظ راستہ؟
محبوب الرحمان تنولی
کچھ دوست اپوزیشن کو مشورہ دے رہے ہیں کہ ایک سال رہ گیا ہے عمران خان کو مدت پوری کرنے دیں! لیکن انھیں کیا پتہ وہ بے چارے تو حکم کے غلام ہیں یہ اپنے ذہن استعمال کرسکتے ہوتے تو سوچتے! حکومت گرانا ہی نہیں آگے ملک چلانا بھی ہے.
جو پی ڈی ایم نہیں چلا سکے وہ آج استعفے نہ دینے کے ایشو پر اپوزیشن اتحاد سے الگ ہونے والے اسی سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کی اطاعت قبول کرکے اپنے "‘متعین شدہ دائرہ کار "میں سرگرداں ہیں.
جہانگیر ترین کے جہاز پہ اعتراضات اٹھانے والے خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں کہ ترین گروپ ان سے رابطے میں ہے، ان کو اس بات کی خوشی ہے کہ احتساب کا جال ٹوٹنے والا ہے.
کسی کو یہ خیال نہیں آ رہا کہ کس طرح بند گلی میں ان کو دھکیلا جا رہا ہے، مسائل میں گرا اور مہنگائی کی دلدل میں پھنسا ہوا کاروبار حکومت یہ کیسے چلائیں گے؟ 6 مہینے گندے ہو کر انتخابات میں جانا پڑے گا.
دوسری طرف ساڑھے تین سال حکومت کر کے ملک کو مہنگائی کی دلدل سے نہ نکال سکنے والے عمران خان انتخابی مہم میں لوگوں کو بتا رہے ہوں گے کہ مجھے مدت پوری کرنے دی جاتی تو میں سارے اہداف حاصل کر لیتا.
وہ اگر اسٹیبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں نہ ملانے کو قصور کہیں، امریکہ کو چھوڑ کر روس سے دوستی کو وجہ قرار دیں یا مہنگائی کو عالمی بحران اور کورونا وائرس کو ڈھال بنائیں عوام کیلئے ہر جواز قابل قبول ہو گا.
وہ اس لئے کہ "احمد دین کی ہنڈیا” تڑوانے والے اقتدار پر مسندنشین ہوں گے اور جوتوں میں دال بٹنی شروع ہو جائے گی، مسائل کے انبار تلے دبی کرسی پر بیٹھ کر ان کو اندازہ ہو گا کہ مہنگا سودا کیا ہے.
شہبازشریف صاحب کو سمجھ آجائے گی کہ بڑے میاں صاحب نے مریم صاحبہ پر ان کو ترجیح دے کر کیسے بھٹی میں جھونکا ہے. سہولت کاروں نے کیسے عمران خان کو چابی والے کھلونوں کے زریعے’محفوظ راستہ’ دیا ہے.
کیا عوام کو آپ اس قدر احمق اور متروک مخلوق سمجھتے ہیں کہ وہ یہ نہ سوچیں گے کہ سینیٹ میں اکثریت کے باوجود حیلے بہانوں سے قانون سازی کے وقت ادھر ادھر کھسکنے والے 163 ووٹوں کے ساتھ 172 کا ہدف کیسے حاصل کریں گے؟
عمران خان اگر ایک بار کا سلیکٹڈ ہے تو باری لینے کیلئے تیار "لی ڈر” جنم جنم سے یہی کاروبار کر رہے ہیں… جب زرا دھوپ میں چلے جائیں تو پھر "ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے ہیں.. زرا سا سانس بحالی کا موقع ملے تو نوکری پہ واپسی کیلئے تیار ہو جاتے ہیں.
ان کی” تاریک عدم اعتماد ” کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ وقت بتائے گا. اگر یہ تحریک ناکام ہوگئی تو اپوزیشن والے خوش قسمت ہوں گے اور اگر کامیاب ہو ئی تو خان صاحب خوش نصیب ٹھہریں گے.
عام آدمی بھی گمان کر سکتا ہے کہ ملک جن معاشی مسائل کا شکار ہے اس کو چھ مہینے یا ایک سال میں مسائل سے نکالنے کیلئے یہ کون سا جادو کا چراغ لائیں گے؟ اپوزیشن اتحاد برقرار نہ رکھ سکنے والے حکومتی گٹھ جوڑ کیسے سنبھالیں گے؟
تاہم ان سارے مشکل سوالوں کا ایک مثبت پہلو بھی ہے جو کہ متذکرہ صاحبان کے پیش نظر ہے وہ یہ کہ امکان غالب ہے. احتساب کا شکنجہ ڈھیلا پڑ جائے گا. فائلیں اور ثبوت غائب، گواہان مکرنا شروع ہوں گے اور انصاف کا بول بالا ہو گا.
سیاسی موسم میں تبدیلی کے آثار نمایاں کیسے ہو رہے ہیں؟ خالد مقبول صدیقی صاحب حکومت سے سخت ناراض ہو گئے ہیں، چوہدری برادران نے ‘ٹکا’ کر ناں کی پھر بڑے چوہدری صاحب مولانا صاحب سے ملنے پہنچ گئے.
اگر موسم ابر آلود رہا تو یہ بعید نہیں کہ شیخ صاحب پھر سے کہہ دیں "امران” پاگل ہے. فواد چوہدری صاحب بھی تحفظات کا اظہار کر سکتے ہیں. کچھ گھونسلے بدلنے والے موسمی پرندے اڑانیں بھر سکتے ہیں.
قوم کی کوئی سنے یا نہ سنے.. حقیقت یہ ہے قوم ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے جو قوم کے ساتھ کھڑا ہو.. ووٹ بھی ضمیر کے مطابق دیتے ہیں.. آگے اگر پریزائیڈنگ افسر غائب ہوں یا ووٹرز مشین خراب ہو جائے تو ان کا کیا قصور ہے؟
آئندہ کے دو تین ہفتے سیاستدانوں کی بالغ نظری کا امتحان ہیں. اگر وزیر اعظم عمران خان نے عثمان بزدار کو دباو میں آکر تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ بہت اچھا فیصلہ ہے اگر برقرار رہ سکے تو… بےشک یہ حکومت کی بجائے. اصول اور سسٹم بچانے کی کوشش ہے.
ہم خیال گروپ ہر زمانے میں تخلیق ہوتے ہیں پیپلزپارٹی کے 17 مجاہد فیصل صالح حیات اور دیگر صاحبان کا گروپ بھی سب کو یاد ہے لیکن پھر فیصل صالح صاحب آسمان سیاست پر پھر جگمگا نہیں سکے.
یہ جو طیاروں کو بندے اکٹھے کرنے کی ڈیوٹی سونپتے ہیں انھیں طیارے گراونڈ کرنے کا بھی ہنر آتا ہے.. ماضی اور حال کے مہروں کی چالیں دیکھ کر ہر زی شعور یہ فیصلہ کر سکتا ہے اسٹیبلشمنٹ کا کوئی قصور نہیں، فردجرم ان پر عائد ہوتی ہے جو برائے فروخت کا بورڈ لگائے پھرتے ہیں.
جب سے ہوش سنبھالا ہے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں سے ایک ہی بات بار بار سنتے آئے ہیں کہ یہ جو ملک کی مالی حالت خراب ہے یا مسائل اور مہنگائی ہے یہ سب سابق حکومت یا حکومتوں کی وجہ سے ہے.
وزیراعظم عمران خان سے بھی یہی گردان سنتے آئے ہیں اور آگے اگر تبدیلی سرکار کی تبدیلی کے بعد کوئی آیا تو عوام تیار رہیں یہ نعرہ چلتا رہے گا کہ سابق حکومت نے ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے.
یاد رہے ماضی قریب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اپنے پانچ پانچ سال مکمل کئے ہیں اگر پھر بھی یہ ماضی کی حکومتوں کو مورد الزام ٹھہراہیں تو صرف عمران خان نہیں نوازشریف ، شاہد خاقان عباسی ،یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف پر بھی برابر فرد جرم عائد ہو گی.
Comments are closed.