سیاستدان پھر استعمال ہو رہے ہیں؟
انصار عباسی
چند روز قبل میری اپوزیشن کے ایک اہم رہنما سے بات ہوئی۔ اہم اِس لحاظ سے کہ وہ بہت کچھ جانتا ہے، مثلاً کیا ہو رہا ہے، کیا کھچڑی پک رہی ہے، عدم اعتماد کی کیا کہانی ہے وغیرہ وغیرہ۔
اُس سے بات کرکے مجھے افسوس ہوا اور ایسا لگا جیسے سیاستدان ایک بار پھر استعمال ہو رہے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم عمران خان پولیٹکل انجینئرنگ کے نتیجے میں اقتدار میں آئے لیکن اب اپوزیشن عمران خان کو نکالنا چاہتی ہے تو بھی اپنے زورِ بازو کی بجائے سہاروں کے لیے ترس رہی ہے۔
یہ پاکستان کی سیاست کا وہ المیہ ہے جسے ہم بُرا سمجھتے ہیں، جس سے ہم جان چھڑانا چاہتے ہیں، جس کے خلاف ہم سیاستدانوں کی بڑی بڑی تقریریں سنتے ہیں لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو سب پولیٹکل انجینئرنگ کا سہارا لینے لگتے ہیں اور یوں ہم نہ خود سدھرتے ہیں نہ سسٹم کو سدھرنے کا موقع دیتے ہیں۔
عمران خان اگر غلط طریقہ سے اقتدار میں آئے تو اُنہیں نکالنے کا طریقہ غلط نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اپوزیشن کے پاس گنتی پوری نہیں تو وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں لانے کا اعلان کیوں کیا؟
مجھے بتایا گیا کہ پی پی پی اور پی ڈی ایم کو جو امیدیں وابستہ ہیں اُس کے لیے اُج بھی اُن کا بھروسہ اپنے زور بازو پر نہیں۔ شہباز شریف، مولانا فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری اُن چند لوگوں میں شامل ہیں جن کو کھیل کی جزیات کے بارے میں آگاہی ہے لیکن وہ اُس ممکنہ گریٹر گیم کے بارے میں لاعلم ہیں جو ہمارے ساتھ ہمارے ہی ملک میں کھیلی جاتی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس گریٹر گیم کے لیے اپوزیشن استعمال ہو رہی ہے اور ہو سکتا ہے پی پی پی اور پی ڈی ایم کو وہ حاصل نہ ہو جس کی وہ توقع لگائے بیٹھے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ ایسے کھیل کا حصہ بننے سے اگر وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو پھر بھی اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سیاستدان استعمال ہوگئے۔
زرداری صاحب نے تو چلیں کھیل ہی کھیل میں زندگی گزار دی لیکن اگر میاں نواز شریف بھی عمران خان حکومت کے خاتمے کے لیے کسی مصلحت کے تحت کسی کھیل کے لیے تیار ہو گئے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ جو کہتے ہیں کہ اُنہوں نے ماضی سے سبق سیکھا، در اصل ایسا نہیں ہے۔
سیاستدانوں کی آپس میں ایک دوسرے سے مخالفت اور حکومتوں کو گرانے کی خواہش میں اس قدر فرسٹریشن میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ سہاروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیں۔ مجھے بتایا گیا کہ میاں شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی حالیہ ملاقاتیں اور پی ٹی آئی حکومت کے اتحادیوں سے رابطے کھیل کا حصہ ہیں۔
اپوزیشن امید سے ہے کہ چاہے ق لیگ اور ایم کیو ایم نے کیسا ہی جواب اُن کو ان رابطوں میں دیا، جب وقت آئے گا یہ اتحادی اپوزیشن کے ساتھ ہوں گے۔ اس کے علاوہ حکمران جماعت کے کوئی پچیس تیس ایم این ایز بھی اپوزیشن کی جھولی میں ہوں گے۔ جو پلان بنایا گیا اُس کے مطابق فروری کا آخری یا مارچ کا پہلا ہفتہ اہم ہوگا۔
مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو اصل کھیل ہے اُس کے بارے میں اپوزیشن کے چند ہی لوگوں کو علم ہے۔ کئی اہم اپوزیشن رہنماؤں کو بھی معلوم نہیں کہ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور یہ کہ کس چیز نے ایک دم سے شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کو بہت فعال کر دیا، کچھ ہی روز میں سب کی آپس میں اور حکومتی اتحادیوں سے بھی میٹنگز ہوگئیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ نتیجہ اپوزیشن کی امیدوں کے مطابق نکلتا ہے یا وہ بُرے طریقہ سے استعمال ہو جائے گی اور بعد میں ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔ نتیجہ اُن کے حق میں آنے پر بھی جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا پھر بھی یہی سیاستدان استعمال ہوں گے۔ اس لیے بہتر ہے اگر اپنے زور بازو پر عمران خان حکومت کو نہیں نکال سکتے تو پھر اگلے سال تک انتظار کریں، اسی میں سیاست کی عزت ہے اور ایسے ہی بہتر روایات قائم ہو سکتی ہیں۔ (بشکریہ روزنامہ جنگ)
Comments are closed.