جب ملے 34 برس بعد!

وقارفانی مغل

اک نئی صبح کی امید لیے !
ہم چراغوں کے ساتھ جلتے ہیں

چاندنی اور دھوپ کو کب کوئی روک سکے ہے، خوشبو پھیلے بغیر رہ نہیں سکتی…انمول رشتوں میں ایک کلاس فیلو کا بھی رشتہ ہوتا ہے جو کسی موڑ پر ہجر کا شکار تو ہوتا ہے مگر پرانے چاول کی طرح اس کی ساکھ مستحکم رہتی ہے… یہ ٹوٹتا نہیں… اس میں پڑی دراڑ اسے اور خوبصورت بنا دیتی ہے.. کوئی اونچ نیچ اسے ختم نہیں کر سکتی جب بھی کلاس فیلو ملتا ہے پرتپاک ملتا ہے.

برسوں پرانی کہانی تازہ ہو جاتی ہے ایسی کہانی بوڑھے دریائے کنہار کے کنارے 4 فروری کو زورو شور سے سنائی دی… جی ہاں ہم 1988 میں میٹرک کرنے والے جمع ہوئے اور پھر دیر تک وہ شرارتیں وہ قصے وہ نالائقی اور زہانت قہقوں میں نظر آ تی رہی… ٹاٹ سے ڈیسک بنچ تک یہ سفر اپنے اندر اک پورا جہاں سمویا ہوا ہے اللہ کی رضا پر ہم سب راضی نظر آ ے.. نہ کوئی ناز نہ نخرہ، عاشق بھی موجود تو صابر و زاہد بھی…

ہمارا مقصود مل بیٹھنا تھا جسکی بشارت واٹس ایپ گروپ میں طارق ہوتی رہی مگر وقار کے ساتھ.. یہ کسی پر احسان نہ تھا بس اک بہانہ تھا کہ ساجد کی معیت میں ہم سجدہ شکر ادا کریں اور کوئی تنویر شفیق لہجے میں اس کی تاہید کر دے… ہم کہاں کے عابد اور کہاں وہ زات حفیظ بس دو لقمے اور چاء کی طلب تھی… خالد کا دیدار اور شوکت سے مصافحہ عزیز تھا…

ڈیسک اور بنچ پر بیٹھے ہم اپنے شفیق اساتذہ کی محنت، والدین کی دعا سے میٹرک پاس کر گئے.. پھر کوئی مزدوری میں جت گیا کوئی نوکر ہوا اور کسی نے ہنر اپنا لیا اور کوئی کتاب تھامے رہا… ہم سب پریکٹیکل ہو گئے….باریش ٹھہرے…. فرائض کی ادائیگی میں سرخرو ٹھہرے… زندگی نعمت لگنے لگی اور بے فکری کو فکر نے گھیر لیا لیکن شکر صد شکر رب کریم کے طفیل ایک بھی مجھے ناکام نظر نہ آ یا…

ظہیر یہی ہوا کہ کاظم مجیب اور ارشد بھی شادمان نظر آ ے..
ظفر اس کو آ دمی نہ جانیے گا..
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا..
یاران مکتب کی یہ محفل اس وقت اور بھی پرجوش ہوتی ہے جب ایک سید زادہ ہمیں پرفضا مقام پر خدمت کی دعوت دیتا ہے… جنید شاہ سر آ نکھوں پر یاران مکتب پہنچیں گے….

ارشد کی طرح باندھے ہم نے سادہ کھانا تناول کیا جسے وقار کے ساتھ طارق مقصود اور زاہد نے احسان کیا تھا… برتنوں پر عابد کے خلوص کی مہر لگی تھی… ایک ایک کینو ہاتھوں کو خوشبو بخش رہا تھا.. عصر کی امامت اور مرحوم اساتذہ اور ہم جماعتوں کے لیے دعا یادگار ٹھہرتی ہے… چاء کا مختصر دور رضا پاتا ہے اور گلے ملتے ہیں پھر ملنے کا عہد ہوتا ہے تصویری یادیں…. فلم بندی بشارت ہے کہ ہم ملینگے اسی تپاک کے ساتھ سیفور کی چاہت کے ساتھ…

میں نے کہا رنگوں سے عشق ہے مجھے
پھر زمانے نے ہر رنگ دکھایا مجھے…
✒️
رضا کی آ نکھیں بگھو اور روح بے چین کر دینے والی کہانی سے شروع ہونے والا یہ سفر بر لب دریا پہنچ چکا ہے…
اسے مسرور پاکر ہم خوش ہوے… شکر بجا لاے…
تحائف بھی تقسیم ہوتے ہیں جس میں زاہد کو ملکہ حاصل ہوا اس بار.. قلم کا تحفہ یادگار بھی قیمتی بھی…نعیم کے لیے اتنا ہی کہ…
میرے دل میں محبت بہت ہے
اور اس محبت میں طاقت بہت ہے

بس محبت ♥ میں اک مسئلہ ہے
یہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتی..

یاران مکتب کا محبت کا سفر، ملنے کی آ س جاری ہے… دعا ہے کہ میرے سارے ٹاٹ فیلو…. بنچ فیلو کامران رہیں… شادمان ہوں…
ندیم رہیں… ندامت باعث بخشش ٹھہری ہے منظور یہی ہے کہ ہم جب بھی ملیں خلوص چھلکتا رہے دل مسرور ہوں…

تیرا ہی آ سرا کافی ہے میرے رب کریم
میری جبین وفا تیری بارگاہ میں ہے!!!

ملتے ہیں یاران مکتب پھر حاجی کیمپ میں… یار زندہ صحبت باقی…

Comments are closed.