ویمن ڈےکے پوسٹرز
ابن آدم
خواتین ڈے پر اسلام آباد میں نیشنل پریس کے سامنے ریلی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں خواتین کے حقوق کے نام پر جو بد تمیزی اور فحش پوسٹروں کی نماہش ہوہی اس نے یقینا” سارے معاشرے کو شرما کر رکھ دیا ہے۔
اس طوفان بدتمیزی پر خود خواتین کا بھی اظہار نا پسند یدگی سامنے آیا، کیا مٹھی بھر آزاد خیال خواتین نے پوسٹرز پر جو نعرے درج کیے کیا ان کا مسلہ صرف یہ ہے ؟
یہ کون سے معاشرے کا حصہ ہیں ،کون ہیں ؟ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ہر پوسٹر اٹھاہے لڑکی کے چہرے بھی نمایاں ہیں جس دیدہ دلیری سے پوسٹرز آویزاں کیے گیے ان کو الفاظ میں بیان بھی کرنا مشکل ہے۔
یقینا” ہمارے معاشرے میں خواتین کے بہت سے مساہل ہیں جن میں جاہیداد میں حصہ، شادی میں مرضی کاشامل ہونا، خواتین کے لیے ادارے، ملازمت میں کوٹہ، کنونس، ہراساں کرنے کے واقعات سمیت کہی جاہز مساہل ہیں۔
خواتین کے دن کو روشن خیال خواتین کا دن سمجھ کر دل کا غبار نکالا گیا یہ با عث افسوس ہے، کہی ایک نے پردے کا مزاق اڑایا ہے، کھانا پکانے کوہتک آمیز انداز میں یاد کیا گیا ہے۔
خواتین کی آزادی میں یہی منفی پہلو معاشرے کو تنگ نظر بناتا ہے کہ جب جب صلاحیتوں کے اظہار کا مو قع ملے وہ داہرہ کار کو نظر انداز کر دیں۔
آزادی کا مقصد مردوں سے مقابلہ بازی یا شانہ بشانہ کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ معاشرے میں اگر بعض مرد حضرات منفی رجحان کو فروغ دے رہے ہیں تو ان کی تقلید کرنا شروع کر دیں، کسی مرد کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ خواتین حقوق پامال کرے ۔
لیکن زیر نظر پوسٹرز دیکھ کر کوہی زی شعور عقل رکھنے والا یہ گوارہ بھی نہیں کر سکتا کہ اس کی بہن بیٹی آزادی کی آڑ میں اس گروہ کا حصہ بنے۔
خواتین و حضرات کے اسلام میں حقوق کا تعین کر دیا گیا ہے اس کے بعد اس کی مر ضی کی تشریح نہیں کی جا سکتی، اسلام ہی ہے جس نے عورت کو ایک بلند مقام دیا ہے اب اگر اس کے باواجود کوہی پردے اور چادر کو قید سمجھے تو اس کی مرضی ہے۔
بے شک یہ پوسٹرز قابل اعتراض ہیں لیکن اس غرض سے شامل اشاعت کیے جا رہے ہیں کہ خواتین کو آزادی دے کر آنکھیں بند کرنے والوں کی آنکھیں بھی کھلیں کیا ان باتوں کو حقوق کہا جا سکتا ہے؟