ہم سب” مری والے“ ہیں
حجاب خان
اگر میرے سمیت تمام پاکستانی سانحہ مری پر افسوس کرنے اور ذمہ داروں کی لعن طعن سے فارغ ہوئے ہوں تو آئیں بیٹھ کر سوچیں کہ اس ملک میں کون کون ”مری والا“نہیں ہے۔یہ لفظ اتنا زیادہ لکھااور بولاگیا کہ ایک ٹرینڈ بن گیا ۔جبکہ عام مری والا اس کیٹگری میں شامل نہیں۔
میں نے تو بہت سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ تقریبا ہر بندہ ہی یہاں کچھ ایسی ہی خصوصیات کا حامل ہے بس مری والے بدنام زرا زیادہ ہوگئے۔ عوام کرے بھی تو کیا کرے بائیکاٹ کرے تو کس کس کا کرے۔مثال کے طور پر آپ نے کبھی بسوں میں کراچی کاسفر کیا ہے؟
اگر کیا ہو تو آپ کے علم میں ہوگا کہ بس ڈرائیور گاڑی کسی سنسان جگہ پر ایک ہوٹل کے آگے لگا دیتے ہیں جس کے آس پڑوس میں اک آدھ دکان کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔ڈرائیور ساتھ اعلان بھی کردیتا ہے کہ کھانا پینا ہے یہاں سے اس کے بعد گاڑی 12 گھنٹے بعد رکے گی۔
اب آپ کے پاس اور کوئی چارہ نہیں اور آپ اسی ہوٹل سے10 کی روٹی 100 میں اور 100 کا سالن 500 میں لینے پر مجبور ہونگے۔چلیں اس کو بھی چھوڑیں موٹروے پر بنے ہوٹلوں اور شاپس یا پٹرول پمپ پر بنے ٹک شاپس سے آپ 20 کے ریٹیل والے بسکٹ 50 میں لینے پر کیوں مجبور ہوتے ہیں؟
حالانکہ انہی جگہوں پر پولیس بھی باہر بیٹھی ہوتی ہے۔پٹرول مہنگا ہونے کے اعلان سے قبل ہی پمپس پر فروخت فورا” کیوں بند کردی جاتی ہے۔اور نوٹیفیکیشن سے قبل ہیں نیا نرخ کیوں لگا دیتے ہیں یہ پمپس دورافتادہ مری کے پہاڑوں پر نہیں بلکہ اسلام آباداور بڑے شہروں کے اندر واقع ہوتے ہیں.
اس کو بھی جانے دیں کہ بہت بڑا مافیا ہے ہاتھ ڈالنا مشکل ہوتا ہے انتظامیہ کیلئے رمضان اور عید کے ایام میں ٹرانسپورٹ کرایہ اچانک کیوں بڑھ جاتا ہےعام دنوں میں وہی گاڑی فی سواری 300 کی لے جائے تو تہواروں پر 1500 ، 2000 کس خوشی میں لئے جاتے ہیں۔
ٹرینوں کی ٹکٹیں کیوں مہنگی ہو جاتی ہیں؟ انہی تہواروں پر بازاروں میں اشیاء کی قیمتیں خود بخود کیسے آسمانوں تک پہنچ جاتی ہیں آپ زندگی کے کسی بھی شعبے کو دیکھ لیں ۔کیا تہواروں پر درزیوں کے نرخ دوگنے نہیں ہوجاتے پبلک ٹرانسپورٹ کی بندش پر ٹیکسی ڈرائیوروں کی چاندی نہیں ہوجاتی۔
کیا کسی جگہ ٹیکسی پر جانے کے دن اور رات کا کرایہ ایک جیسا ہوا ہے رات کو کرایے دوگنا کیوں ہوجاتے ہیں؟ راستہ تو وہی ہوتا ہے، ٹرانسپورٹ اڈوں میں بنے ہوٹلوں کے ریٹ زیادہ ہونے پر کیوں اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔
گوشت کا نرخ اور قصابوں کے نرخ، مٹھائی کی دکانوں کے نرخ کیا سارا سال ایک جیسے رہتے ہیں؟ کیا حجام والا تہوار کے دنوں میں انہی پیسوں میں بال بناتا ہے جس پر عام دنوں میں بناتا ہے۔
جمعہ کو آٹوشاپس بند ہوتے ہیں اس دن آپ کی گاڑی خراب ہوجائے توکیا مکینک دوگنا تین گنا زیادہ مزدوری لیکر آپ کی گاڑی مرمت نہیں کرتے ۔کون ہے اس دور میں جس کی بدمعاشی نہیں.
ایزی پیسہ شاپس مالکان کو کمپنی والے پیسے بھیجنے اور وصول کرنے کے عوض کمیشن دیتے ہیں ۔اپنے اکاونٹ میں رقم ڈالنے پر صارف سے کمیشن نہیں بنتا لیکن 80 فیصد سے زیادہ دکاندار ڈھٹائی سے چارجزلیتے ہیں کہ بے شک کمپنی کی طرف سے منع ہے.
وہ کہتے ہیں ہماری یونین کا فیصلہ ہے ہم تو لیں گے اور کوئی انکا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔آن لائن بل جمع کرانے کے چارجزبھی سرعام لئے جاتے ہیں۔اور اگر تاریخ آخری ہو تو چارجز دوگنا۔اصل میں کسی کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا ہمارا قومی فریضہ بن چکا ہے.
یہاں ہر پیشے کا اپنا ایک سیزن ہے اور ہر بندہ اپنی ذات میں ایک ”مری والا“ ہے اور ہر ایک نے اپنا سیزن لگانا ہے۔کوئی کس طرح سیزن لگاتا ہے کوئی کس طرح ۔کام سب کاایک جیسا بس طریقہ واردات الگ الگ ہےلیکن ہم سب” مری والے“ ہیں۔
Comments are closed.